فتح اور حماس کا غزہ کی حکومت چلانے کے لیے کمیٹی بنانے پر اتفاق

  • فتح اور حماس کے درمیان غزہ کے لیے انتظامی کمیٹی بنانے پر اتفاق ہوا ہے۔
  • حکام نے بتایا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کے بعد اس معاہدے پر عمل ہو گا۔
  • لبنان میں حزب اللہ کے جنگجوؤں کی جانب سے راکٹ حملوں اور اسرائیل کی جوابی کارروائیوں سے جنگ بندی کے معاہدے پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔
  • دونوں جانب سے کارروائیوں کے باوجود امریکی حکام نے پیر کو اس بات کی امید ظاہر کی ہے کہ عارضی امن برقرار رہے گا۔

فلسطینی حکام کا کہنا ہے فتح اور عسکریت پسند تنظیم حماس جنگ کے بعد غزہ کے انتظامی منصوبے پر اتفاقِ رائے کے قریب ہیں۔

مجوزہ منصوبے میں اسرائیلی مقبوضہ مغربی کنارے پر حکومت کرنے والی فتح اور 2007 سے غزہ میں برسرِ اقتدار حماس نے غزہ کی انتظامیہ کے لیے سیاسی طور پر آزاد 15 ٹیکنو کریٹس پر مشتمل ایک کمیٹی مقرر کرنے کی تجویز پر اتفاق کیا ہے۔

منگل کو حکام نے بتایا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کے بعد اس معاہدے پر عمل ہو گا۔

امریکہ، مصر اور قطر کئی ماہ سے اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے لیے کوشاں ہیں تاہم تاحال اس میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔

امریکی اور دیگر حکام نے حالیہ دنوں میں امید ظاہر کی ہے کہ لبنانی عسکریت پسند تنظیم حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی سے غزہ میں جنگ بندی کے لیے جاری کوششوں کو تقویت ملے گی۔

اسرائیلی وزیرِ دفاع اسرائیل کاٹز نے منگل کو کہا ہے کہ اگر جنگ بندی ناکام ہوتی ہے تو اسرائیلی فوج لبنان میں اپنی کارروائیوں کا دائرہ بڑھائے گی۔

شمالی سرحد کے دورے میں ان کا کہنا تھا کہ اب تک ہم لبنان اور حزب اللہ میں فرق کرتے آئے ہیں اور اگر جنگ بندی ناکام ہوئی تو پھر اس کا لحاظ نہیں کریں گے۔

لبنان میں حزب اللہ کے جنگجوؤں کی جانب سے راکٹ حملوں اور اسرائیل کی جوابی کارروائیوں سے جنگ بندی کے معاہدے پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔

اسرائیلی ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف) نے پیر کو لبنان میں متعدد حملے کیے اور الزام عائد کیا کہ ایران نواز حزب اللہ اسرائیل پر راکٹ حملے کر کے معاہدے کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔

اسرائیل نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ جوابی حملوں میں حزب اللہ کے راکٹ لانچرز، دہشت گرد جنگجوؤں اور حزب اللہ کی دیگر تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

لبنان کی وزارتِ صحت کے پیر کو جاری کردہ بیان کے مطابق اسرائیلی حملوں سے حاریص اور طلوسہ نامی قصبوں میں نو افراد ہلاک اور تین زخمی ہوئے۔ اس کے علاوہ حکام نے جنوبی لبنان میں اسرائیل کے حملوں سے دو ہلاکتوں کی اطلاع دی تھی۔

یہ حملے اسرائیل کی شیبہ فارمز میں موجود فوج پر حزب اللہ کے حملوں کے جواب میں شروع ہوئے ہیں۔ حزب اللہ نے اپنی کارروائیوں کو ’خبردار کرنے کے لیے کیے گئے دفاعی حملے‘ قرار دیا ہے۔

دونوں جانب سے کارروائیوں کے باوجود امریکی حکام نے پیر کو اس بات کی امید ظاہر کی ہے کہ عارضی امن برقرار رہے گا۔

SEE ALSO: صدارت سنبھالنے تک یرغمالی رہا نہ ہوئے تو ذمے داروں کو سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے: ٹرمپ

پیر کو پینٹاگان کے ترجمان میجر جنرل پیٹ رائیڈر نے کہا تھا کہ حالیہ واقعات کے باوجود ہمارا اندازہ یہی ہے کہ جنگ بندی برقرار رہے گی۔

امریکہ کے محکمۂ خارجہ کے حکام کا بھی کہنا ہے کہ دونوں جانب سے خلاف ورزی کے الزامات کے باوجود اس بات کے آثار نظر نہیں آتے کہ جنگ بندی معاہدے کو کوئی خطرہ ہے۔

امریکہ اور فرانس کی کوششوں سے اسرائیل اور لبنان کے درمیان جنگ بندی ہوئی تھی جس کے بعد فریقین کے درمیان سات اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر شروع ہونے والی کشیدگی کے خاتمے کا امکان پیدا ہوا ہے۔

اسرائیل پر حماس کے حملے میں 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے اور حماس نے 250 افراد کو یرغمال بنا لیا تھا جن میں سے 100 یرغمال غزہ میں موجود ہیں جن میں ایک تہائی کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ان کی موت ہو چکی ہے۔

غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق اسرائیلی کارروائیوں میں اب تک 44 ہزار سے زائد فلسطینی جان کی بازی ہار چکے ہیں۔

امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کو سوشل میڈیا پلیٹ فورم پر پوسٹ میں خبردار کیا ہے کہ 20 جنوری کو ان کے حلف اٹھانے سے قبل اگر یرغمال رہا نہ کیے گئے تو مشرقِ وسطیٰ میں اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔

انہوں نے کہا کہ ذمے داران کو امریکہ کی تاریخ میں سب سے زیادہ سخت انداز میں سبق سکھایا جائے گا۔ تمام یرغمالوں کو فوری رہا کیا جائے۔

SEE ALSO: بڑے ہتھیاروں کی عالمی فروخت گزشتہ برس 632 ارب ڈالر تک کیسےپہنچی؟

اس کے بقول ہلاک ہونے والوں میں نصف سے زائد خواتین اور بچے ہیں۔ وزارت شہریوں اور جنگجوؤں میں تفریق نہیں کرتی۔ اسرائیل بغیر کسی ثبوت کے دعویٰ کرتا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں 17 ہزار عسکریت پسند شامل ہیں۔

امریکہ، برطانیہ اور مغربی ممالک حزب اللہ اور حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں۔

اس رپورٹ کے لیے مواد ایسوسی ایٹڈ پریس، اے ایف پی اور رائٹرز سے لیا گیا ہے۔