تحقیقاتی صحافت کی بین الاقوامی تنظیم ’انٹرنیشنل کنسورشیئم آف انسویسٹی گیٹیو جرنلسٹس‘ (آئی سی آئی جے) نے اتوار کو 200 سے زائد ممالک سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات کی بیرونِ ملک خفیہ دولت کی تفصیلات کا انکشاف کیا ہے۔
آئی سی آئی جے کے مطابق مالیاتی خدمات فراہم کرنے والی دنیا کی مختلف 14 کمپنیوں کی لگ بھگ ایک کروڑ 20 لاکھ فائلز کے ایک جائزے کے بعد تفصیلات مرتب کی گئی ہیں جسے 'پینڈورا پیپرز' کا نام دیا گیا ہے۔
آئی سی آئی جے کی ویب سائٹ کے مطابق ’پینڈورا پیپرز‘ کے عنوان سے جاری کردہ دستاویزات کو مرتب کرنے کے لیے 117 ممالک کے 150 سے زیادہ میڈیا اداروں سے تعلق رکھنے والے 600 صحافیوں نے حصہ لیا۔
آئی سی آئی جے کے مطابق پینڈورا پیپرز میں 91 سے زائد ممالک اور علاقوں کے 35 عالمی راہنماوں اور 330 سے زائد موجودہ اور سابق سیاست دانوں سے متعلق تفصیلات شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ان میں کئی موجودہ و سابق سربراہان مملکت اور ان کے قریبی ساتھیوں کے نام بھی ہیں۔
لیکن تنظیم نے اس بات کی تفصیلات فراہم نہیں کی کہ اس نے مالیاتی اداروں کی یہ معلومات یا ڈیٹا کس طرح حاصل کیا ہے۔
آئی سی آئی جے اس سے قبل 2016 میں بھی دنیا کے سیکڑوں عالمی رہنماؤں، سیاست دانوں، کاروباری افراد، جرائم پیشہ افراد اور مختلف شعبوں کی معروف شخصیات کے اثاثوں کے بارے میں 'پاناما پیپرز' کے نام سے تفصیلات سامنے لاچکی ہے۔
آئی سی آئی جے کی تحقیقات کا نام پنڈورا پیپرز کیوں پڑا؟
آئی سی آئی جے نے اپنی تحقیقات کا عنوان 'پینڈورا پیپرز' اس لیے رکھا کیوں کہ اس میں اشرافیہ کے خفیہ لین دین اور مجموعی طور پر کھربوں ڈالر کی جائیدادوں کو آف شور اکاؤنٹس کے ذریعے چھپانے کی کوششوں کو طشت از بام کیا گیا ہے۔
یہ بنیادی طور پر یونانی روایات سے اخذ کردہ نام ہے اور اس سے ایک ضرب المثل 'پینڈورا بکس کھولنا' انگریزی اور اب اردو میں بھی رائج ہے۔ اس سے مراد کسی ایسی چیز کو سامنے لانا جو کئی لوگوں کے لیے مسائل کا سبب بن سکتی ہو۔
SEE ALSO: پینڈورا پیپرز: پاکستانی سیاست دانوں و سابق جرنیلوں کی مبینہ خفیہ دولت کا انکشاف، عمران خان کا تحقیقات کا اعلانپنڈورا پیپرز کی تیاری کے لیے پاکستان سے دو صحافی اس عمل میں شامل رہے، جن میں پاناما پیپرز پر کام کرنے والے عمر چیمہ اور مقامی انگریزی اخبار 'دی نیوز' کے نمائندے فخر درانی شامل ہیں۔
آئی سی آئی جے کی طرف سے جاری ہونے والی فہرست کے مطابق ان پیپرز میں 700 پاکستانی باشندے بھی شامل ہیں جن کی بیرونِ ملک آف شور کمپنیاں ہیں۔
امریکی بزنس میگزین فوربس کے مطابق پینڈورا پیپرز میں جن 29 ہزار آف شور کمپنیوں کی تفصیلات دی گئی ہیں ان میں جریدے کی ارب پتی افراد کی جاری کردہ فہرست میں سے شامل 130 افراد کی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔
سیکڑوں عالمی رہنماؤں کے نام کہاں سے آئے؟
پینڈورا پیپرز میں 330 سے زائد عالمی رہنماؤں کے نام شامل ہیں۔ آئی سی آئی جے نے ان حالیہ انکشافات میں اتنی بڑی تعداد میں سیاسی رہنماؤں کے نام شامل ہونے کی وجہ بتائی ہے۔
آئی سی آئی جے کا کہنا ہے کہ انہیں جن 14 مالیاتی کمپنیوں کا ڈیٹا حاصل ہوا ہے ان میں مالیاتی خدمات فراہم کرنے والی 'الکوگل' اور 'ٹرائڈنٹ ٹرسٹ' نامی دو کمپنیوں کے کلائنٹس میں سابق سیاست دانوں اور سرکاری عہدے داروں کی بڑی تعداد شامل ہے۔ جن کے زیادہ تر اثاثے برٹش ورجن آئی لینڈ اور پاناما میں رجسٹرڈ ہیں۔
آئی سی آئی جے کے مطابق پینڈورا پیپرز میں جن سیاست دانوں اور سرکاری عہدے داروں کے نام ہیں ان میں سے نصف سے زائد 'الکوگل' کے کلائنٹ ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
واضح رہے کہ 'الکوگل' کا ہیڈ کوارٹر پاناما میں ہے جس کے بانیوں میں متعدد سیاست دان شامل ہیں۔ اس کے بانیوں میں سے ایک امریکہ میں پاناما کے سابق سفیر بھی ہیں۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق 'الکوگل' کمپنی نے اپنے بیان میں مشکوک سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات کی تردید کی ہے اور اپنے دفاع کے لیے قانونی کارروائی کرنے کا بھی عندیہ دیا ہے۔ اس کے علاوہ حکام کو مبینہ بے ضابطگیوں کی تحقیقات کرنے کی بھی پیش کش کی ہے۔
پیچیدہ نظام کون بناتا ہے؟
آئی سی آئی جے کا کہنا ہے کہ موصول ہونے والے ڈیٹا کے جائزے کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ کس طرح بینک اور لا فرمز آف شور خدمات فراہم کرنے والوں کے لیے پیچیدہ نظام بناتی ہیں۔
تنظیم کے مطابق ان دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ مشتبہ سرگرمیوں میں ملوث افراد سے کاروبار کرتے ہوئے محتاط رہنے کی قانونی پابندی کے باوجود خدمات فراہم کرنے والی کمپنیاں اپنے سبھی کسٹمرز کے بارے میں پوری معلومات نہیں رکھتیں۔
ان تحقیقات میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ٹرسٹ بنانے والی کمپنیوں نے امریکہ کی بعض ایسی ریاستوں کے قونین کا فائدہ بھی اٹھایا ہے جہاں راز داری کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔
ان قوانین کی مدد سے بہت سے لوگ اپنے ممالک میں ٹیکس بچانے کے لیے بیرون ملک اپنے سرمائے محفوظ بناتے ہیں۔
پینڈورا اور پاناما پیپرز میں فرق
آئی سی آئی جے کا دعویٰ ہے کہ 'پینڈورا پیپرز' تاریخ کی سب سے بڑی مشترکہ صحافتی تحقیقات کے نتیجے میں سامنے آئے ہیں۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق پینڈورا پیپرز 2016 میں آئی سی آئی جے کے جاری کردہ پاناما پیپرز سے بھی زیادہ بڑے پیمانے پر تفصیلات سامنے لائے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
سن 2016 میں سامنے آنے والے پاناما پیپرز جاری ہونے کے بعد دنیا کے مختلف ممالک میں پولیس کارروائیاں کی گئیں۔ کئی ممالک میں قوانین ننئے قوانین بنائے گئے جب کہ آئس لینڈ اور پاکستان کے وزرائے اعظم کو اس اسکینڈل کی وجہ سے گھر جانا پڑا تھا۔
آئی سی آئی جے کا کہنا ہے کہ پینڈورا پیپرز کے لیے لگ بھگ تین ٹیرا بائٹس کے ڈیٹا کا جائزہ لیا گیا ہے۔ یہ ڈیٹا کسی اسمارٹ فون سے لی گئی ساڑھے سات لاکھ تصاویر کے حجم جتنا بنتا ہے۔
یہ ڈیٹا دنیا بھر میں مالیاتی خدمات فراہم کرنے والی 14 کمپنیوں کا ہے جو دنیا کے مختلف 38 ممالک کی حدود میں واقع ہے۔ جس کے ریکارڈ کا جائزہ لیا گیا ہے جس میں 1970 کی دہائی کا ریکارڈ بھی شامل ہے۔ البتہ 1996 سے 2020 کے دورانیے کی دستاویزات تحقیقات کا محور رہی ہیں۔
اس سے قبل جاری ہونے والے پاناما پیپرز کے ڈیٹا کا کل حجم دو اعشاریہ چھ ٹیرا بائٹس تھا۔ یہ ڈیٹا پاناما میں قائم لا فرم موزیک فونسیکا کے لیک ہونے والی معلومات پر مشتمل تھا۔ یہ کمپنی چوں کہ پاناما میں تھی اس لیے منظر عام پر لائی گئی دستاویزات کو 'پاناما پیپرز' کا نام دیا گیا تھا۔
آف شور کمپنیاں کہاں کہاں ہیں؟
حالیہ تحقیقات میں آف شور کمپنیوں کے لیے محفوظ تصور ہونے والے برٹش ورجن آئی لینڈ، شیل، ہانگ کانگ اور بیلز کے نام شامل ہونے کے ساتھ ساتھ امریکہ میں بنائے گئے خفیہ اکاؤنٹس اور ٹرسٹس کی تفصیلات بھی سامنے لائی گئی ہیں۔
امریکہ کی ریاست ساؤتھ ڈکوٹا میں 81 اور فلوریڈا میں ایسے 37 ٹرسٹ شامل ہیں جن کے ذریعے اثاثے خریدے گئے۔
'اے ایف پی' کے مطابق آئی سی آئی جے کی مشترکہ تحقیقات سے ماضی میں وابستہ رہنے والے فرانسیسی صحافی میکزم واودانو کا کہنا ہے کہ 'پینڈورا پیپرز' میں جن سیاست دانوں کی تفصیلات سامنے لائی گئی ہیں ان کی تعداد پاناما پیپرز کے مقابلے میں دگنی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا کہنا ہے کہ ایک پہلو ان حالیہ تفصیلات کو پاناما سے مختلف بناتا ہے کہ ان میں ٹیکس سے بچنے کی ایسی محفوظ پناہ گاہوں یا ٹیکس ہیونز کے نام بھی سامنے آئے ہیں جن کے بارے میں ہم اس سے پہلے بہت کچھ نہیں جانتے تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ برمودا یا بہاماس میں ہونے والی اصلاحات کے بعد ساؤتھ ڈکوٹا ایک بڑے ٹیکس ہیون کے طور پر سامنے آیا ہے۔
کیا تمام جائیدادیں غیر قانونی ہیں؟
پینڈورا پیپرز جاری کرنے والی تنظیم آئی سی آئی جے کا مؤقف ہے کہ اکثر ممالک میں آف شور یا شیل کمپنیوں سے کاروبار کرنا غیر قانونی نہیں۔ بین الاقوامی سطح پر کاروبار کرنے والے لوگ اپنے مالیاتی امور چلانے کے لیے آف شور کمپنیوں کو اپنی ضرورت قرار دیتے ہیں۔
لیکن اس کے ساتھ ہی آئی سی آئی جے کا کہنا ہے کہ اس رعایت کی وجہ سے عام طور پر لوگ اپنے اثاثے جو انہوں نے زیادہ ٹیکس وصول کرنے والے ممالک سے کمائے ہوتے ہیں، انہیں صرف کاغذی کمپنیوں کے ذریعے دوسری جگہ منتقل کر دیتے ہیں۔
آئی سی آئی جے کے مطابق خاص طور پر سیاسی شخصیات کا آف شور کمپنیوں کی آڑ لینا اس لیے متنازع ہے کہ ان کے ذریعے ایسی سرگرمیوں کو بھی عوام کی نگاہوں سے اوجھل رکھ سکتے ہیں جو عام طور ناقابلِ قبول ہوں یا غیر قانونی ہوں۔
اس تحریر میں شامل بعض معلومات خبر رساں اداروں ایسوسی ایٹڈ پریس ، رائٹرز اور اے پی سے لی گئی ہیں۔