امریکہ نے کہا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے حقانی نیٹ ورک کی بیخ کنی کے معاملے پراُس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا ہے۔
امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا نے جمعرات کو کابل میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قبائلی خطے میں حقانی نیٹ ورک کے زیراستعمال پناہ گاہوں کے خلاف پاکستان کو کارروائی کرنا ہوگی۔ ’’ اس معاملے پر ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔‘‘
کابل آمد سے قبل پنیٹا نے بھارت میں بھی دو روزہ سرکاری دورے کے دوران اپنے بیانات میں پاکستان پر شدت پسندوں کے خلاف کارروائیاں تیز کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور افغان دارالحکومت کے ہوائی اڈے پر امریکی افواج سے خطاب کرتے ہوئے اس دباؤ کو برقرار رکھا۔
’’اپنا دفاع کرنا ہمارا حق ہے اور ہم صاف طور پر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم اُن (حقانی نیٹ ورک) سے نبرد آزما ہونے کے لیے تیار ہیں، اور ہمیں پاکستان پر بھی دباؤ بڑھانا ہوگا کہ وہ بھی ان کے خلاف حرکت میں آئے۔‘‘
لیکن امریکی دباؤ کے باوجود پاکستان خاص طور پر حقانی نیٹ ورک کے جنگجوؤں کے خلاف کارروائی کرنے سے گریزاں ہے۔ امریکہ کا ماننا ہے کہ افغانستان میں غیر ملکی افواج پر حالیہ مہلک حملوں میں اس دہشت گردی تنظیم کے شدت پسند ملوث ہیں۔
پاکستان کے اس رویے سے بظاہر مایوسی کا شکار امریکہ نے حالیہ دنوں میں وزیرستان کے علاقے میں شدت پسندوں کے مشتبہ ٹھکانوں کے خلاف ڈرون طیاروں سے میزائل حملے بھی تیز کردیے ہیں۔
رواں ہفتے ایسے ہی ایک حملے میں القاعدہ کے ایک اہم رہنما کی ہلاکت پر امریکی وزیر دفاع پنیٹا نے ازراہ مذاق کہا کہ ’’آج کل اگر کوئی بدترین نوکری آپ کو مل سکتی ہے تو وہ القاعدہ کا نائب رہنما یا پھر ایک رہنما ہونا ہے‘‘۔
لیون پنیٹا طالبان اور دیگر عسکری دھڑوں کے خلاف جنگ کا جائزہ لینے اور امریکی فوجیوں کے انخلا کے منصوبوں پر بات چیت کے لیے افغانستان پہنچے ہیں جو میدان جنگ کا یہ اُن کا چوتھا دورہ ہے۔
امریکی وزیر دفاع نے اعتراف کیا کہ ملک میں حملوں میں اضافہ ہوا ہے اور عسکریت پسند بظاہر اب کہیں زیادہ منظم ہیں جس کی فوجی کمانڈر توقع کررہے تھے تاہم ان کا کہنا تھا کہ مجموعی طور پرتشدد کے واقعات میں کمی آئی ہے۔
امریکی وزیر دفاع کی افغانستان آمد سے ایک روز قبل جنوبی افغانستان میں تین خودکش بمباروں نے ایک بازار میں حملہ کرکے 22 افراد کو ہلاک اور کم ازکم 50 زخمی کردیا تھا۔
امریکہ نے اس سال ستمبر تک افغانستان سے اپنے 23 ہزار فوجیوں کو واپس بلانے کا اعلان کررکھا ہے جس کے بعد ملک میں تقریباً 68 ہزار فوجی رہ جائیں گے۔
اتحادی افواج کے امریکی کمانڈر جنرل جان ایلن کہہ چکے ہیں کہ واپس جانے والے فوجیوں کی کمی کو ملک کے مشرقی اور جنوب مغربی حصوں میں افغان افواج پورا کریں گی جنہیں امریکی فوجی مشیروں کی معاونت حاصل ہوگی۔