|
" ہمارے والدین نے ہمارے بہتر مستقبل کے لیے اپنے آبائی وطن اور اس سے جڑے تمام رشتوں اور اپنے خوبصورت ماضی کو خیر باد کہا اور اس قرض کو چکائے بنا یہاں امریکہ آگئے جو اس سرزمین نے انہیں اس شعور اور و سائل کی فراہمی کے لیے دیا تھا۔ لیکن اپنے وطن کی مٹی کا قرض ادا کرنےکی ان کی خواہش پوری نہیں ہوئی ہے اور اب ہم ان کی اس خواہش کی تکمیل کے لئے اپنا وقت وسائل اورٹیکنالوجی کو استعمال کر رہے ہیں۔ “
یہ کہانی ہے امریکی ریاست مشی گن کے چار نوجوانوں کی جو امریکہ میں پیدا ہوئے اور یہیں پلے بڑھے لیکن وہ اپنے آبائی وطن پاکستان کے دیہی علاقوں میں صاف پانی کی فراہمی کے لیے اپنی تنظیم “پانی پراجیکٹ” کے ذریعے واٹر پمپ ،سولر واٹر سینٹرز اور سولر واٹر ویلز لگوانے کا اہتمام کر رہے ہیں۔
و ہ اب تک پانی پراجیکٹ کے پلیٹ فارم سے 60 لاکھ ڈالر کے فنڈز سے تین پاکستانی صوبوں پنجاب، سندھ اور کے پی کے میں ہینڈ پمپس، ڈیپ ویلز ، واٹر ویلز کے 17500 سے زیادہ پراجیکٹ مکمل کر چکے ہیں جن میں لگ بھگ 120 سولر پاورڈ سنٹر، اور چار واٹر فلٹر پلانٹ شامل ہیں ۔
پانی پراجیکٹ کی کہانی
پانی پراجیکٹ کی یہ کہانی وی او کو سنائی اس تنظیم کے فاؤنڈر سکندر سنی خان نے جن کے "پانی پراجیکٹ "کو امریکہ اور عالمی سطح پر سراہا گیا ہے ۔سنی خان ٹیکنالوجی کو سماجی بھلائی کےلیے استعمال کرنے پر "گیٹس ملینیم ایوارڈ"حاصل کر چکے ہیں۔
وہ ٹائمز کے 100 رائزینگ اسٹارز میں شامل ہیں جب کہ ان کی زیر قیادت پانی پراجیکٹ کی ٹیم کو حال ہی میں پرنس آف ویلز نے پاکستان کے دیہاتوں کے ایک لاکھ افراد کو صاف پانی کی فراہمی پر "پرنسس ڈیانالیگیسی" ایوارڈ‘ دیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے"پانی پراجیکٹ" کے فاؤنڈر اور سی ای او سکندر سنی خان نے کہا کہ یہ 2017 کی بات ہے جب وہ مشی گن یونیورسٹی میں بزنس ایڈمنسٹریشن کے اسٹوڈنٹ تھے ۔ اس وقت ہم چار دوستوں میں گپ شپ کے دوران آئی ایم ایف کی ایک رپورٹ کا ذکر ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ آئندہ چند برسوں میں پاکستان پانی کی شدید ترین قلت والے ملکوں میں شامل ہوجائے گا۔
یہ خبرہم چاروں کے لیے بہت تکلیف دہ تھی۔اور یہ وہ لمحہ تھا جب ہم نے پاکستان میں پانی کے مسئلے کے لیے کچھ کرنے کا سوچا اور یہ ہی وہ دن تھا جب ہم چاروں نے”پانی پراجیکٹ” کا فکری سفر شروع کیا اور اس سوچ کو عملی جامہ پہنانے کےلیے رسیرچ ورک شروع کیا۔
سکندر سنی نے جو اس وقت مائیکروسوفٹ کے آرٹیفیشل انٹیلی جینس کے شعبے میں پروڈکٹ مارکٹنگ مینیجر ہیں بتایا کہ جامع ریسرچ کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ ہمیں سب سے پہلے پاکستان کے دیہاتوں میں صاف پانی کی فراہمی پر کام کرنا چاہیے اور یہ کام وہاں کنویں بنوانے کے ذریعے ممکن ہو سکتا ہے جس کے لیے ہم فنڈز اکٹھے کر سکتے ہیں۔
پاکستان میں پارٹنرز کی تلاش
لیکن سوال یہ تھا کہ فنڈز اکٹھے ہو بھی یہاں امریکہ میں بیٹھ کر پاکستان میں کنویں کیسے تعمیر کروا سکتے ہیں؟ سو ہم نے انٹر نیٹ پر پاکستان میں کسی پارٹنر تنطیم کی تلاش کا اشتہار دیا ۔ بہت سی این جی اوز نے ہم سے رابطہ کیا اور ان میں سے دو کو ہم نے فائنل کیا۔ پاکستان کے فاسٹ رورل ڈویلپ منٹ پروگرام، ایف آر ڈی پی، اور ٹکل ویلفئیر آرگنائزیشنز کو جو پہلے ہی پاکستان میں مختلف فلاحی کاموں میں مصروف تھیں۔
پہلے کنویں کے لئے فنڈز یونیورسٹی میں ڈونٹس بیچ کر جمع کیے
اب اگلا مرحلہ فنڈزریزنگ کا تھا ۔ ہم نے تین ماہ تک مارکیٹ سے ڈونٹس خرید کر یونیورسٹی کے طالبعلموں کو فروخت کئے اور اتنے فنڈز اکٹھے کر لیے کہ پاکستان کے ایک دیہات میں ایک کنواں تعمیر کیا جا سکتا تھا۔ پہلا کنواں سندھ کے ڈسٹرکٹ میر پور خاص میں تھا۔ جو اس وقت 160 ڈالر میں تعمیر ہو گیا۔ جس کی تصویر دیکھ کر ہم نہال ہو گئے ۔ ہمارا حوصلہ بلند ہوا اور ہم نے پاکستان میں پانی کے بحران کے حل کے دوسرے پہلووں پر ریسرچ شروع کی اور اپنی آرگنائزیشن کو مضبوط کر کے مزیدچندہ جمع کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔
پراجیکٹ کیسے چلتا ہے۔
سکندر خان نے بتایا کہ ہمارا پورا پراجیکٹ رضاکاروں اور امریکہ اور پاکستان کے لوگوں کے عطیات سے چلتا ہے جو اپنے والدین یا اپنے کسی عزیز کے نام پر کوئی کنواں ، ہینڈ پمپ یا سولر واٹر سنٹر نصب کرنے کے لیے فنڈز دیتے ہیں ۔
ہماری پارٹنر تنظیمیں سائنٹفک ریسرچز کے ذریعے ہمیں بتاتی ہیں کہ کس مقام پر پانی کا کونسا پراجیکٹ لگ سکتا ہے اور اس کے لیے کتنے فنڈزدرکارہوںگے اور کس مقام کے لوگوں نے ان سے کس قسم کے پانی پراجیکٹ کی درخواست کی ہے۔
اس کے بعد ہم انہیں آن لائن فنڈزفراہم کرتے ہیں اور وہ ان پراجیکٹس پر عملدرآمد کرتی ہیں جب کہ پاکستان میں پانی پراجیکٹ کے مینیجر ممتاز علی پراجیکٹس کے پورے عمل کی نگرانی کرتے ہیں۔
پراجیکٹ تین ماہ میں مکمل
ہر پراجیکٹ تین ماہ میں مکمل ہو جاتا ہے جس کے بعد ہر ڈونر کو اس کے عطیے سے بننے والے پراجیکٹ کے پورے عمل کی گوگل ڈرائیو پر ساٹھ فوٹوز کی ایک البم اور ایک ویڈیو بھیجی جاتی ہے جس میں اس سے استفادہ کرنے والی کمیونٹیز کی تصاویر شامل ہوتی ہیں تاکہ وہ دیکھ سکیں کہ ان کا عطیہ کیسے لوگوں کی مدد کررہاہے ۔
انہوں نے بتایا کہ اس وقت ان کے پراجیکٹس پنجاب ، سندھ اور کے پی کے میں چل رہے ہیں کیوں کہ بلوچستان کے لیے ابھی تک کسی ڈونر نے عطیہ نہیں دیا ہے ۔
پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کےلیے دس لاکھ ڈالرکے طبی سامان کا عطیہ
سکندر سنی نے کہا کہ پاکستان میں پانی کے بحران کی ایک وجہ وہاں پانی کے استعمال کے بارےمیں عوامی سطح پر معلومات کا فقدان ہے۔ ہم نے پاکستان کی نئی جنریشن کے لیے صحت عامہ کی حفاظت کے لئے سینیٹیشن کا ایک نصاب ترتیب دیا اور اسے پاکستان کے دیہات کے اسکولوں کے دس ہزار طالبعلموں میں تقسیم کروایا۔ اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے اسپتالوں میں پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے علاج کے لیے لگ بھگ دس لاکھ ڈالر کے فنڈز اکٹھے کرکے انہیں طبی سامان اور آلات فراہم کیے ۔
پانی پراجیکٹ کی کامیابی کی وجوہات
شفافیت اور ٹکنالوجی
سکندر سنی ںے بتایا کہ ہمارے پانی پراجیکٹ کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کا سارا کام آن لائن ہوتا ہے ، فنڈز کی وصولی سے لے کر فنڈز کے استعمال تک ہر تفصیل آن لائن موجود ہوتی ہے اور پراجیکٹ کی تکمیل تک کے مراحل کی تصاویر اور ویڈیوز فنڈز دینے والے تک پہنچائی جاتی ہیں اور وہ جب چاہیں اس پراجیکٹ پر جا کر براہ راست اس کا معائنہ کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے ہیں کہ ان کا پیسہ کہاں اور کیسے اور کس دیانتداری سے خرچ ہوا تو ان کا ہم پر اعتماد بڑھتا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ وہ مزید لوگوں کی مدد کریں جس کے لیے وہ مزید فنڈزہمیں فراہم کرتے ہیں ۔ وہ اپنے دوستوں احباب کو ہمارے ادارے کے بارے میں معلومات فیس بک پر اور سوشل میڈیا پر شئیر کرتے ہیں اور جیسے جیسے لوگوں تک یہ معلومات پہنچتی ہیں وہ ہم سے رابطہ کر کے اس مشن میں اپنے فنڈز کے ساتھ شامل ہو جاتے ہیں۔
کمیونٹی کی شمولیت اور ٹریننگ
ہماری کامیابی کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ ہم جہاں جہاں یہ پراجیکٹس لگاتے ہیں وہاں کی کمیونٹی کو اس کی اونر شپ دیتے ہیں ۔ وہ خود ان کی نگرانی اور دیکھ بھال کرتی ہے۔
اول تو ان میں استعمال ہونے والا مواد بہترین لگایا جاتا ہے لیکن ہم ہر کمیونٹی کو معمولی خرابی کو ٹھیک کرنے کی ٹریننگ دیتے ہیں ۔ اور وہ اس کی اپنی ذاتی ملکیت کی طرح دیکھ بھال کرتے ہیں اور معمولی سی خرابی پیدا ہونےپر اسے خود ہی ٹھیک کر لیتے ہیں جس پر زیادہ سے زیادہ سو پچاس روپے ہی خرچ ہوتے ہیں۔
پراجیکٹس کی براہ راست نگرانی
پاکستان میں موجود ہمارے نوجوان پراجیکٹ مینیجر امتیاز علی، پراجیکٹس کی شروع سے آخر تک نگرانی کرتے ہیں جب کہ میں اور میری ٹیم کے دوسرے نوجوان پانی پراجیکٹ کے پراڈکٹ مینیجر، ارحم ارشد، اور پروگرام مینیجر محمد بوزدار جو اٹلی میں ایک انٹر پرینیور ہیں ہر سال تین ہفتوں کے لیے پاکستان جاتے ہیں اور پراجیکٹس کا معائنہ کرتے ہیں اور وہاں کی کمیونٹی سے رابطہ رکھتے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ "پانی پراجیکٹ "کی خوبصورتی یہ ہے کہ یہ ہماری جدو جہد کی ایک شروعات ہے ۔ ہم پاکستانی اور پاکستانی امریکی کمیونٹی کے ساتھ مل کر پاکستان کو ایک بہتر مستقبل دینے کے لیے اپنا کام جاری رکھ سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ" پانی پراجیکٹ" پانی کی فراہمی کے علاوہ دوسرے فلاحی کام بھی کرتا ہے ۔وہ اب تک پاکستانی دیہاتوں میں لاکھوں کھانے تقسیم کر چکا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس پلیٹ فارم کے ذریعے اپنی فلاحی سرگرمیوں کا دائرہ اردن تک بڑھا چکے ہیں جب کہ وہ اسکولوں کی تعمیر ، یتیموں کی کفالت اور گھروں کی تعمیر کے پراجیکٹس بھی چلا رہے ہیں۔
یہ کاوش جو بنیادی طور پر پاکستان میں غریب دیہاتیوں کو پینے کاصاف پانی فراہم کرنے کے ایک مشن کے ساتھ شروع ہوئی تھی اب ایک تحریک بن چکی ہے جو دوسروں کو پاکستان کے بہتر مستقبل کے لیے اپنا وقت اور وسائل صرف کرے پر آمادہ کرتی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا ادارہ یہاں امریکہ میں پاکستانی کمیونٹی کے بچوں میں کمیونٹی سروس کی ذمہ داری اجاگر کرنے کے لیے ایک ماڈل کے طور پر کام کر رہا ہے ۔