فرانس میں سن 2015 کے دہشت گرد حملوں سے منسلک 20 افراد کے خلاف مقدمے کی سماعت بدھ کے روز پیرس میں شروع ہوئی، جس کا تقریباً 9 مہینوں تک جاری رہنے کا امکان ہے۔
ملزوں مین شامل 6 افراد کے خلاف مقدمہ ان کی غیر موجودگی میں چلایا جا رہا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق،ان میں سے پانچ افراد عراق یا شام میں ہلاک ہو چکے ہیں۔
اسلامک اسٹیٹ یعنی داعش سے تعلق رکھنے والے 9 دہشت گردوں نے، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق فرانس اور بیلجیئم سے تھا، متعدد واقعات میں کئی شراب خانوں، ریستورانوں اور نیشنل اسٹیڈیم کے بیٹاکلن تھیٹر کو اپنا نشانہ بنا کر دہشت پھیلا دی تھی۔ ان حملوں میں مجموعی طور پر 130 افراد ہلاک ہو ئے تھے، جن میں سے 90 ایک کنسرٹ کے دوران بیٹاکلن تھیٹر کے اندر مارے گئے تھے۔
ان حملوں میں کم ازکم 490 افراد زخمی بھی ہوئے۔
دس رکنی دہشت گرد گروپ کو 15 نومبر 2015 کے حملوں کےچار ماہ بعد برسلز سے گرفتار کیا گیا تھا، جن میں سے اب صرف ایک دہشت گرد صالح عبدالسلام زندہ ہے۔ اس پر دہشت گردوں کی مدد کرنے کا الزام ہے۔
واقعات کے مطابق، 9 مسلح افراد اور خودکش بمباروں نے 13 نومبر 2015 کو پیرس کے مختلف مقامات پر چند منٹوں کے فرق سے حملے کیے۔ ان واقعات میں 130 افراد ہلاک ہوئے اور ملک بھر میں خوف و ہراس کی فضا پھیل گئی۔
دہشت گردی کے اس واقعے کا شمار دوسری جنگ عظیم کے بعد فرانس میں بدترین تشدد کے واقعہ کے طور کیا جاتا ہے۔
اس دہشت گردی کا زندہ بچنے والا واحد کلیدی ملزم صالح عبدالسلام ہے۔ لیکن اس نے اب تک تفتیش کاروں کے کسی سوال کا کوئی جواب نہیں دیا اور نہ ہی یہ بتایا ہے کہ کن لوگوں نے اس کی منصوبہ بندی کی تھی۔ عبدالسلام کا بھائی بھی خودکش بمباروں میں شامل تھا۔
عبدالسلام کو جب عدالت میں پیش کیا گیا تو اس نے چھوٹی آستینوں کی کالی قمیض اور کالی پتلون پہن رکھی تھی۔
جب عدالت میں اس سے پوچھا گیا کہ اس کا پیشہ کیا ہے تو اس نے کہا وہ داعش کا ایک جنگجو ہے۔
عبدالسلام حملے کی رات فرار ہو گیا تھا اور اس کی کار سے ایک ناکارہ خودکش جیکٹ برآمد ہوئی تھی۔ وہ واحد ایسا ملزم ہے جس پر قتل کا الزام ہے، جب دیگر ملزموں پر الزام کی نوعیت نسبتاً کم درجے کی ہے۔
SEE ALSO: بیلجیم: پیرس حملوں کے مرکزی ملزم کے خلاف مقدمے کا آغازیونیورسٹی آف لیئج کے شعبہ جرائم کے ایک پروفیسر مائیکل ڈانٹین نے میڈیا ادارے فرانس 24 کو بتایا کہ یہ مقدمہ دہشت گردی سے متاثرہ افراد کے لیے حقیقتاً ایک اہم قدم ہے۔ یہ ان کے لیے بھی اہمیت رکھتا ہے جو ان واقعات میں زخمی ہوئے تھے، اور ان خاندانوں کے لیے بھی اہم ہے جن کے پیارے ان دہشت گرد واقعات کی بھینٹ چڑھ گئے تھے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ مقدمہ محض متاثرین کے زخموں پر مرہم رکھنے کی جانب ایک قدم ہے اور یہ کہ اس کا کوئی جادوئی اثر نہیں ہو گا۔
یہ مقدمہ پیرس میں ایک خصوصی طور پر تعمیر کردہ عدالت میں چلایا جا رہا ہے اور اسے فرانس کی جدید قانونی تاریخ کا سب سے بڑا واقعہ قرار دیا جا رہا ہے۔