پاکستان کے شمال مغربی علاقے میں عسکریت پسندوں کے خلاف ممکنہ آپریشن کی تیاری ہو رہی ہے، جب کہ ان علاقوں میں آباد قبائل کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی خطے میں 2014 اور 2017 میں ہونے والے فوجی آپریشن کے احتساب کے منتظر ہیں۔
نیشنل سیکیورٹی کمیٹی نے اب تک یہ نہیں بتایا کہ آپریشن کب شروع ہو گا۔ اس کمیٹی میں اعلیٰ سیاسی اور عسکری قیادت شامل ہے۔ تاہم کمیٹی کا رواں ماہ کے اوائل میں کہنا تھا کہ یہ کارروائی عسکریت پسندوں کے سیکیورٹی فورسز پر کیے جانے والے حملوں کو روکنے کے لیے کی جائے گی۔
حکومت کا کہنا ہے کہ ماضی میں کیے جانے والے آپریشنز سے دہشت گرد حملوں میں کمی ہوئی تاہم مقامی پختون قبائل اور قیام امن کے لیے متحرک رضا کاروں کا کہنا ہے کہ پہلے بھی آپریشنز کی معصوم لوگوں کو بھاری قیمت چکانا پڑی ہے۔
وائس آف امریکہ کےپیر زبیر شاہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی قومی اسمبلی کے جنوبی وزیرستان سے منتخب ہونے والے رکن علی وزیر نے رواں ماہ سات اپریل کو پارلیمنٹ میں خطاب میں کہا تھا کہ ان علاقوں میں مسلح دہشت گردوں کو واپس لانے والے فوج کے جنرلوں اور معاونت کرنے والے افراد کو نہ تو گرفتار کیا گیا ہے اور نہ ہی ان سے کسی قسم کی باز پرس ہوئی ہے۔
علی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ وہ مزید کسی فوجی آپریشن کی مذمت کریں گے۔
انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ ماضی میں ہونے والے آپریشنز میں ہزاروں افراد مارے گئے۔ اس کے علاوہ لاکھوں بے گھر ہوئے جب کہ مقامی لوگوں کے کاروبار کو نقصان پہنچا۔
Your browser doesn’t support HTML5
علی وزیر کو ماورائے عدالت ہونے والی اموات، جبری گمشدگیوں، غیر قانونی حراست، بارودی سرنگوں اور پشتون علاقے میں طالبان کے ساتھ ساتھ حکومت پر تنقید کرنے کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔
وہ 60 ماہ پر مبنی اپنے پارلیمانی دور کے نصف مدت تک سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پر تنقید کی وجہ سے جیل میں رہے۔
رواں ماہ کے اوائل میں پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے علی وزیر کی تنقید پر جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ کارروائی سے متعلق مقامی افراد کے خدشات کو دور کیا جائے گا۔
شہباز شریف کا پارلیمان میں کہنا تھا کہ وہ وزیرستان سے تعلق رکھنے والے اراکینِ قومی اسمبلی سے کہنا چاہتے ہیں کہ ان کے خدشات کو سنا جائے گا اور انہیں مطمئن کیا جائے گا۔
علاوہ ازیں وزیرِ دفاع خواجہ آصف کہہ چکے ہیں کہ وہ وزیرستان سے تعلق رکھنے والے اراکین کے خدشات کی حمایت کرتے ہیں، اور ان کے بقول، اراکین کے خدشات درست ہیں۔
پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنما اور کارکنان فوجی آپریشن کے بارے میں شدید تحفظات رکھتے ہیں جب کہ وہ ایک اور آپریشن کے محرکات اور اس کے وقت کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔
واضح رہے کہ اس فوجی آپریشن کا فیصلہ ایک ایسے سال میں کیا جا رہا ہے جس برس ملک میں انتخابات ہونے ہیں جب کہ یہ افغانستان سے امریکہ اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد فوج کا یہ پہلا آپریشن ہوگا۔
Your browser doesn’t support HTML5
سوات سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے کارکن اور مقامی تحریک کے رہنما ادریس باچا کا کہنا ہے کہ آپریشن کے اعلان سے مقامی افراد میں خوف پھیلا ہے کیوں کہ گزشتہ ادوار میں کیے گئے آپریشنز میں وہ لوگ متاثر ہوئے ہیں جو اس بار بھی آپریشنز کا شکار ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ کوئی انہیں بتائے کہ گزشتہ فوجی آپریشنز میں کیا حاصل کیا گیا؟ ان کے بقول 80 ہزار لوگ مارے گئے، پورے کے پورے گاؤں تباہ ہو گئے اور بازار کھنڈر میں بدل گئے۔ وہ یہ نہیں چاہتے وہی سب کچھ دوبارہ ہو۔
دوسری طرف کچھ افراد اس فوجی آپریشن کے مالی فوائد بھی دیکھتے ہیں کیوں کہ پاکستان آئی ایم ایف سے مزید ایک مالیاتی بیل آؤٹ پیکیج کے انتظار میں ہے۔
سابق رکن صوبائی اسمبلی اور پی ٹی ایم کے حامی میر کلام وزیر کا کہنا ہے کہ وہ پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ ماضی میں پاکستان کو جب بھی پیسوں کی ضرورت پڑی ہے، انہوں نے فنڈز حاصل کرنے کے لیے پشتون علاقوں میں آپریشن کیے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بار بھی یہی لگتا ہے کہ پاکستان کو معاشی بحران کے حل کے لیے فنڈز درکار ہیں، خاص طور پر امریکہ سے۔