بھارتی پنجاب میں ایک علیحدہ سکھ ریاست ’ خالصتان‘ کے قیام کی حامی تنظیم ’وارث پنجاب دے‘ کے سربراہ اور علیحدگی پسند رہنما امرت پال سنگھ کو اتوار کی صبح ضلع موگا کے ایک گردوارے سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ پولیس کو 18 مارچ سے امرت پال سنگھ کی تلاش تھی۔
انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس سکھ چین سنگھ گل نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ امرت پال سنگھ کو ضلع موگا کے روڈے گاؤں سے صبح پونے سات بجے گرفتار کیا گیا۔
سکھ چین سنگھ کا کہنا تھا کہ پولیس کو ایسی اطلاعات ملی تھیں کہ وہ روڈے گاؤں کے گردوارے میں چھپے ہوئے ہیں۔ امرت پال سنگھ کو انٹیلی جنس اور امرتسر دیہی پولیس کے تعاون سے گرفتار کیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پولیس نے گردوارے کا محاصرہ کر لیا تھا۔ لیکن اس کا ادب کرتے ہوئے پولیس اس میں داخل نہیں ہوئی۔ اس وقت امرت پال کے پاس خود کو پولیس کے حوالے کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔
اس موقع کی کچھ تصاویر سوشل میڈیا پر موجود ہیں جن میں انہیں روایتی مذہبی سفید لباس میں دیکھا جا سکتا ہے۔
ایک اور ویڈیو سوشل میڈیا میں وائرل ہے جس میں انہیں روڈے کے گردوارے میں مبینہ طور پر خطاب میں کہتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ سرنڈر کر رہے ہیں۔
امرت پال سنگھ نے اپنے خطاب میں کہا کہ یہ جرنیل سنگھ بھنڈراں والا (خالصتان حامی مقتول رہنما) کی جائے پیدائش ہے۔ اسی مقام پر ان کی دستار بندی ہوئی تھی۔ وہ زندگی کے ایک نازک موڑ پر کھڑے ہیں۔ گزشتہ ایک ماہ کے دوران جو کچھ ہوا، وہ آپ نے دیکھا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے ایک ماہ قبل سکھوں کے ساتھ زیادتی کی۔ اگر صرف ان کی گرفتاری کا معاملہ ہوتا تو شاید مارچ میں ہی انہیں گرفتار کر لیا جاتا۔ وہ پولیس کے ساتھ تعاون کرتے۔ اللہ کی عدالت میں وہ مجرم نہیں ہیں مگر دنیاوی عدالت میں وہ مجرم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک ماہ بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ اس سرزمین کے لیے انہوں نے لڑائی لڑی۔ وہ اسی سرزمین پر لڑیں گے اور اسے کبھی نہیں چھوڑیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے ان کے خلاف جھوٹے مقدمات قائم کیے جو غلط ثابت ہوں گے۔ یہ گرفتاری ان کی لڑائی کا خاتمہ نہیں بلکہ آغاز ہے۔
دوسری طرف اکال تخت کے سابق جتھے دار جسبیر سنگھ روڈے نے دعویٰ کیا ہے کہ امرت پال سنگھ نے سرنڈر کیا ہے، اس وقت وہ وہاں موجود تھے۔
جسبیر سنگھ روڈے نے وہاں موجود صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امرت پال سنگھ نے گرفتاری سے قبل لوگوں سے خطاب کیا اور پھر خود کو پولیس کے حوالے کرنے کے لیے گردوارے سے باہر آئے۔
خیال رہے کہ امرت پال سنگھ سکھوں کے لیے ایک علیحدہ ریاست خالصتان کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
ان پر قتل، اقدام قتل، قانون کی راہ میں رکاوٹ بننے اور امن و امان کو نقصان پہنچانے کے الزامات ہیں۔ وہ اور ان کے سینکڑوں حامیوں نے فروری میں اجنالہ پولیس تھانے میں بند اپنے ایک ساتھی کو چھڑانے کے لیے تھانے پر دھاوا بولا تھا۔ دھاوا بولنے والوں میں اکثریت مسلح تھی۔
امرت پال سنگھ کو قومی سلامتی ایکٹ (این ایس اے) کے تحت گرفتار کرکے ریاست آسام کی ڈبروگڑھ جیل روانہ کر دیا گیا جہاں ان سے پوچھ گچھ کی جائے گی۔ ڈبرو گڑھ جیل میں امرت پال کے آٹھ ساتھیوں کو بھی رکھا گیا ہے۔ ان پر بھی این ایس اے لگایا گیا ہے۔
اس قانون کے تحت کسی کو بھی بغیر کسی الزام کے ایک سال تک جیل میں رکھا جا سکتا ہے۔
پولیس کے مطابق امرت پال سنگھ کے تمام گرفتار شدہ ساتھی مجرمانہ بیک گراؤنڈ رکھتے ہیں۔ وہ پنجاب کے ایک علیحدگی پسند دیپ سدھو کے حامی ہیں جنہوں نے وارث پنجاب دے نامی تنظیم بنائی تھی۔
فروری 2022 میں ایک سڑک حادثے میں ان کی موت ہو گئی تھی۔ اس کے بعد دبئی سے آکر امرت پال سنگھ نے اس کی سربراہی کی کمان سنبھالی۔
امرت پال سنگھ کو آسام کی ڈبروگڑھ جیل منتقل کر دیا گیا جو 60۔1859 میں تعمیر کی گئی تھی۔ وہ کافی محفوظ جیل سمجھی جاتی ہے۔
حکام کے مطابق جیل کے اردگرد سیکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔ جس سیل میں امرت پال سنگھ کے ساتھیوں کو رکھا گیا ہے، اس کے اطراف میں بھی سیکیورٹی کی کئی لیئرز بنائی گئی ہیں۔
بھارتی اخبار ‘ہندوستان ٹائمز’ نے جیل کے ایک عہدے دار کے حوالے سے کہا ہے کہ سینٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) کے جوان 24 گھنٹے جیل کی نگرانی کر رہے ہیں۔
سیکیورٹی کے پیش نظر آسام پولیس کے کمانڈوز کو بھی تعینات کیا گیا ہے۔ جیل کے اندر اور باہر کی نگرانی کے لیے 57 سی سی ٹی وی کیمرے بھی نصب کیے گئے ہیں۔