مونگ پھلی کی افادیت کے حوالے سے شائع ہونے والی ایک نئی تحقیق میں مونگ پھلی کے استعمال کو لمبی عمر کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے۔
بین الاقوامی مطالعے سے ظاہر ہوا ہے کہ زیادہ مونگ پھلی اور گری دار خشک میوے کھانے والے لوگوں میں عارضہ قلب سے ہونے والی اموات کا خطرے کم تھا۔
آن لائن جریدہ 'جاما انٹرنیشنل میڈیسن' میں اسی ہفتے شائع ہونے والی تحقیق امریکہ کی یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن سے وابستہ محقق ڈاکٹر ژاؤ او شو نے خشک میوے اور موت کے خطرے کی شرح کے درمیان تعلق کی جانچ پڑتال کی ہے ۔
مطالعے کے مصنف ژاؤ او شو نے کہا کہ ہماری تحقیق میں مونگ پھلی کھانے سے قلبی فوائد ظاہر ہوئے ہیں مطالعے میں جن لوگوں نے خشک میوے کے طور پرمونگ پھلی کھائی تھی ان میں مطالعے کی مدت کے دوران موت کا خطرہ ایسے لوگوں کی نسبت کم تھا جنھوں نے خشک میوہ کم استعمال کیا تھا یا بالکل نہیں کھایا تھا۔
محقق ژاؤ او شو نے کہا کہ مونگ پھلی اگرچہ خشک میوہ نہیں ہے اور اس کی درجہ بندی پھلی کے طور پر کی جاتی ہے لیکن اس کے غذائی اجزاء خشک میوے سے ملتے جلتے ہیں۔
انھوں نے تجویز کیا ہے کہ جن لوگوں کو مونگ پھلی سے الرجی نہیں ہے انھیں دل کی صحت کے فوائد کے لیے زیادہ سے زیادہ مونگ پھلی کھانی چاہیئے جو دوسرے میووں کےمقابلے میں سستی بھی ہے ۔
امریکی طبی ماہرین کہتے ہیں کہ مونگ پھلی میں دیگر میوہ جات کی طرح انسانی صحت کے لیے بے شمار طبی اور غذائی فوائد چھپے ہیں اس میں اعلی درجہ کی پروٹین وافر مقدار میں موجود ہے جبکہ مونگ پھلی کا مفید روغن ،وٹامن ای ،نمکیات ،فائبر دل کی بیماریوں کے لیے قوت مدافعت میں اضافہ کرتی ہیں۔
مطالعے میں سائنسدانوں نے 70,000 سے زائد امریکیوں اور افریقہ کے لوگوں کے خوراک سے متعلق سوالنامہ کے اعداد وشمار کا تجزیہ کیا ہے اس کے علاوہ مطالعہ میں چین کے کم آمدنی والے 134,000 مرد اور خواتین کے کھانے پینے کی عادتوں کے بارے میں معلومات کا تجزیہ بھی شامل تھا ۔
امریکہ ،افریقہ اور چین کے مطالعوں کے شریک گروپوں میں عورتوں نے سب سے زیادہ مونگ پھلیاں کھائی تھیں ۔
نتیجہ سے یہ یات سامنے آئی کہ تینوں گروپ میں گری دار میوہ کل اموات اور دل کی بیماری 'سی وی ڈی' سے موت کے کم خطرے کے ساتھ منسلک تھا۔ جبکہ تمام نسلی گروہوں میں زیادہ مونگ پھلیاں کھانے والوں میں دل کی بیماریوں کا خطرہ کم تھا اور یہ تعلق مردوں اور عورتوں دونوں میں ظاہر ہوا جو زیادہ مونگ پھلی کھاتے تھے۔
امریکی مطالعہ کے گروپ کے تجزیہ سے نتیجہ ظاہر ہوا کہ جن لوگوں نے مطالعے کی چھ سالہ مدت کے دوران زیادہ مونگ پھلیاں کھائی تھیں ان میں موت کا خطرہ 21 فیصد تک کم تھا ان لوگوں کے مقابلے میں جو مونگ پھلیاں نہیں کھاتے تھے ۔
تجزیہ کاروں نے دیکھا کہ ایشیائی شرکاء کے مطالعے میں جن لوگوں گری دار میوے اور مونگ پھلیوں کا زیادہ استعمال کیا تھا ان میں موت کا خطرہ ایسے لوگوں کی نسبت 17 فی صد کم تھا جو بہت کم مونگ پھلیاں کھاتے تھے ۔
تاہم محقق نے کہا مطالعے میں شامل لوگوں کو دن بھر میں 17 سے 18 گرام مونگ پھلی کھانے کی ضرورت تھی۔
آکسفورڈ یونیورسٹی میں کی جانے والی ایک تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ کچی مونگ پھلی کے مقابلے میں تلی ہوئی مونگ پھلی الرجی پیدا کر سکتی ہے جبکہ سائنسدانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ زیادہ درجہ حرارت پر تلنے کی وجہ سے مونگ پھلی میں کیمیائی تغیرات پیدا ہوتے ہیں جس سے انسان کا مدافعتی نظام زیادہ فعال ہو جاتا ہے اور الرجی کا ردعمل ظاہر ہو سکتا ہے۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ایشیائی ملکوں میں مونگ پھلی سے الرجی کی شرح بہت کم ہےاور بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مونگ پھلیوں کو تلنے کے بجائے بھون کریا ابال کر کھانے کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے ۔