امریکی محکمہ دفاع (پینٹاگان) نے ایک آزاد اور غیر جانب دار جائزے کے بعد کہا ہے کہ اگست میں داعش کے ٹھکانے کو نشانہ بنانے کے لیے کابل میں کیے گیے آخری ڈرون حملے میں ضابطے کی خلاف ورزی یا غفلت سامنے نہیں آئی۔
محکمہ دفاع کی جانب سے اس حوالے سے کی جانے والی تحقیقات کے بعد اس غلطی پر کسی محکمہ جاتی کارروائی کی بھی تجویز نہیں دی گئی۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق اس تفتیش کے دوران، جسے امریکی فضائیہ کے لیفٹننٹ جنرل سمیع سعید نے سرانجام دیا میں یہ بات سامنے آئی کہ ہدف کی نشان دہی اور ڈرون حملے کے دوران مواصلاتی تعطل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
نام نہ بتانے کی شرط پر کئی سینئر دفاعی حکام نے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کو بتایا کہ سمیع سعید کی رپورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ شہریوں کی ہلاکتوں سے بچنے کے لیے محتاط اقدامات اٹھانے کے باوجود ڈرون حملے میں غلطی ہوئی۔ یہ رپورٹ ابھی تک عام نہیں کی گئی ہے۔
امریکی فضائیہ کے انسپکٹر جنرل سمیع سعید کا افغان جنگ سے کوئی تعلق نہیں ہے اس لیے انہیں اس قسم کی تفتیش کے لیے غیر جانب دار سمجھا گیا تھا۔
SEE ALSO: کابل میں آخری ڈرون حملہ: امریکہ ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کو معاوضہ ادا کرے گاسمیع سعید نے اپنی رپورٹ میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے تناظر میں پیدا ہونے والے حالات اور کابل ایئرپورٹ کے قریب ہونے والے خود کش حملے کا حوالہ دیا۔
ان کی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی کہ اگر ڈرون حملہ کرنے والی ٹیم اور ان کے ساتھی اہلکاروں میں بہتر رابطے ہوتے تو شاید اس حملے سے قبل شکوک و شبہات کا اظہار کیا جاتا، لیکن اس کے باوجود اس حملے کو روکنا ممکن نہیں تھا۔
یہ رپورٹ جسے امریکی سیکرٹری دفاع لائیڈ آسٹن کی حمایت حاصل ہے میں مستقبل کے لیے کئی تجاویز بھی دی گئی ہیں تاکہ ایسے واقعات کو روکا جا سکے۔
سمیع سعید نے یہ تجویز بھی دی کہ کسی بھی ڈرون حملے کے دوران بچوں کی موجودگی نہ ہونا یقینی بنائی جائے۔
خیال رہے کہ 29 اگست کو امریکہ کے ڈورن حملے میں افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ایک کار کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس کار کو زمیری احمدی چلا رہے تھے۔ انہوں اس کار کو اپنے کمپاؤنڈ میں کھڑا کیا تھا جب اسے نشانہ بنایا گیا۔
اس حملے میں احمدی کے خاندان کے 10 افراد ہلاک ہوئے تھے جس میں سات بچے بھی شامل تھے۔
تاہم کچھ ہفتوں بعد امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل فرینک مکینزی نے اس حملے کو ‘سنگین غلطی’ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس حملے میں معصوم شہری ہلاک ہوئے۔
امریکی محکمہ دفاع کے ترجمان جان کربی کا کہنا تھا کہ انہیں حکام نے بتایا کہ احمدی عرصۂ دراز سے ایک امریکی امدادی ادارے کے ساتھ منسلک تھے۔
اس حملے کے کچھ دن بعد امریکہ کی فوج کے اعلیٰ ترین افسر چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک ملی نے بھی اس حملے کا دفاع کرتے ہوئے اسے درست قرار دیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
جنرل ملی کا رواں ماہ یکم ستمبر کو پینٹاگان میں صحافیوں سے گفتگو میں کہنا تھا کہ انہیں دیگر ذرائع سے بھی یہ معلوم ہوا تھا کہ اس حملے میں ہلاک ہونے والے افراد میں سے کم از کم ایک فرد داعش کا سہولت کار تھا۔
ان کے بقول اس ضمن میں درست طریقۂ کار اپنایا گیا تھا۔
امریکی محکمۂ دفاع کے دعوؤں کے بعد مختلف خبریں سامنے آئی تھیں کہ امریکہ کی فوج کے ڈرون حملے میں داعش خراساں کے سہولت کار کے بجائے زمیری احمدی نامی امدادی رضاکار کو ہلاک کیا گیا ہے جو کہ امریکہ کی ریاست کیلی فورنیا میں قائم ایک غیر سرکاری تنظیم کے امدادی کارکن تھے اور جنہوں نے امریکہ منتقل ہونے کے لیے درخواست بھی دے رکھی تھی۔
امریکی اخبارات ‘نیو یارک ٹائمز’ اور ‘واشنگٹن پوسٹ’ کی تحقیقات نے بھی امریکی دعوؤں پر شکوک پیدا کر دیے تھے۔