رسائی کے لنکس

امریکہ نے افغانستان میں ڈرون حملے میں غلطی سے داعش کے بجائے امدادی کارکن کو نشانہ بنایا: رپورٹ


امریکی حکام کے مطابق ڈرون حملے کے بعد ایک بڑا دھماکہ ہوا۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ گاڑی میں دھماکہ خیز مواد تھا۔ (فائل فوٹو)
امریکی حکام کے مطابق ڈرون حملے کے بعد ایک بڑا دھماکہ ہوا۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ گاڑی میں دھماکہ خیز مواد تھا۔ (فائل فوٹو)

ایک حالیہ اخباری رپورٹ میں سامنے آیا ہے کہ امریکہ نے افغانستان میں انخلا کے آخری دنوں میں داعش کو نشانہ بنانے کے لیے کابل میں کیے گئے ڈرون حملے میں انتہا پسند تنظیم کے جنگجو کے بجائے مبینہ غلطی سے ایک مشتبہ امدادی کارکن کو نشانہ بنایا تھا۔

امریکہ کے محکمۂ دفاع پینٹاگون نے کہا تھا کہ اس نے گزشتہ ماہ 29 اگست کو ڈرون حملے کے ذریعے ایک اور حملے کی منصوبہ بندی کرنے والے داعش کے رکن کو نشانہ بنایا تھا۔

اس حملے سے ایک دن قبل امریکی فورسز نے 20 برس سے جاری مشن ختم کیا تھا۔ جس کے بعد کابل ایئر پورٹ کے باہر حملہ ہوا تھا جہاں طالبان کے قبضے کے بعد ملک چھوڑنے کے لیے بڑی تعداد میں لوگ موجود تھے۔

قبل ازیں کابل کے شہری ایمل احمدی نے خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کو بتایا تھا کہ امریکہ کے حملے سے 10 شہری ہلاک ہوئے تھے جن میں ان کے گھر کے بچوں کے علاوہ ان کے بھائی ازمرائی احمدی بھی شامل تھے۔ جو کہ وہ گاڑی چلا رہے تھے جو کہ گھر میں پارک کیے جانے کے بعد نشانہ بنائی گئی۔

امریکہ کے اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ کی ٹیم نے سی سی ٹی وی فوٹیج کا تجزیہ کرنے کے بعد رپورٹ کیا ہے کہ امریکہ کی فوج نے ممکنہ طور پر دیکھا ہو گا کہ ازمرائی احمدی اور ان کے ساتھی گاڑی میں کنستر یا گلین رکھ رہے ہیں۔ یہ گیلن پانی سے بھرے ہوئے تھے کیوں کہ کابل کے جس علاقے میں ان کا گھر تھا وہاں پانی کی قلت ہے۔

’نیو یارک ٹائمز‘ کے مطابق اس کے علاوہ امریکہ کی فوج نے دیکھا ہو گا کہ ان کے پاس لیپ ٹاپ اور دیگر الیکٹرانک آلات ہیں۔

ازمرائی احمدی کے اہلِ خانہ کا کہنا ہے کہ وہ امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا میں قائم غذائیت اور تعلیم پر کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم سے بطور الیکٹریکل انجینئر وابستہ تھے اور ان ہزاروں افغان شہریوں میں شامل تھے جنہوں نے امریکہ منتقل ہونے کے لیے درخواست دی تھی۔

کیا ڈرون حملے کے بعد ایک اور دھماکہ ہوا تھا؟

امریکی حکام کے مطابق ڈرون حملے کے بعد ایک بڑا دھماکہ ہوا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ گاڑی میں دھماکہ خیز مواد تھا۔

’نیو یارک ٹائمز‘ کی تحقیقات میں دعوی کیا گیا ہے کہ بارودی مواد کے ماہرین کو دھماکے کے بعد کی تصاویر اور ملنے والے ملبے کے نمونے دکھائے گئے جس سے واضح ہوتا ہے کہ دوسرا دھماکہ ہونے کے کوئی ثبوت نہیں ہیں۔ جب کہ قریب واقع دروازے کو معمول نقصان پہنچا۔ اس کے علاوہ دوسرے دھماکے کے لیے کوئی واضح ثبوت موجود نہیں ہے۔

نیو یارک ٹائمز کی تحقیقات کے مطابق دوسرا دھماکہ ہونے کے کوئی ثبوت نہیں ملے جب کہ قریب واقع دروازے پر ایک ڈینٹ دیکھا گیا اور اس کے علاوہ ایک اور دھماکے کے کوئی واضح ثبوت نہیں۔ (فائل فوٹو)
نیو یارک ٹائمز کی تحقیقات کے مطابق دوسرا دھماکہ ہونے کے کوئی ثبوت نہیں ملے جب کہ قریب واقع دروازے پر ایک ڈینٹ دیکھا گیا اور اس کے علاوہ ایک اور دھماکے کے کوئی واضح ثبوت نہیں۔ (فائل فوٹو)

ہلاکتوں کی تعداد

ایمل احمدی کا ’اے ایف پی‘ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ اس حملے کے نتیجے میں 10 شہری ہلاک ہوئے تاہم دوسری طرف امریکہ میں حکام نے تین شہریوں کی ہلاکتوں کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا تھا کہ مذکورہ کارروائی کے بعد ایک اور حملے سے بچ گئے۔

’نیو یارک ٹائمز‘ کی رپورٹ پر مؤقف دیتے ہوئے پینٹاگون کے ترجمان جان کربی کا کہنا تھا کہ امریکہ کی سینٹرل کمانڈ حملے کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کا اندازہ لگا رہی ہے اور ان کے بقول شہریوں کی ہلاکتوں سے بچنے کے لیے ممکنہ اقدامات کیے جاتے ہیں۔

جان کربی کا کہنا تھا کہ جنرل مارک ملی کہہ چکے ہیں کہ حملہ خفیہ اطلاعات پر منحصر تھا۔ جنرل ملی اب بھی سمجھتے ہیں کہ اس سے ایئر پورٹ پر ہونے والے ایک اور حملے سے بچا گیا جہاں امریکہ کے فوجی اہلکار اس وقت بھی خدمات انجام دے رہے تھے۔

کابل ایئر پورٹ پر وی او اے کی نامہ نگار نے کیا دیکھا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:07:21 0:00

جس دن امریکہ نے یہ کارروائی کی تھی اسی دن کابل ایئرپورٹ پر میزائل داغے گئے تھے۔ ایئر پورٹ پر ہونے والے اس حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔

داعش نے ائیر پورٹ پر میزائل داغنے کے لیے جو گاڑی استعمال کی تھی وہ امدادی کارکن ازمرائی احمدی کی گاڑی سے مشابہہ تھی۔

رواں سال اپریل میں براؤن یونیورسٹی کی تحقیق میں سامنے آیا تھا کہ نائن الیون حملوں کے بعد شروع ہونے والی جنگ میں 71 ہزار سے زائد افغان اور پاکستانی شہری ہلاک ہوئے ہیں۔

اس خبر میں معلومات خبر رساں ادارے اے ایف پی سے لی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

XS
SM
MD
LG