کسی تاریک رات میں، جب آسمان بالکل صاف ہو، آپ نے کبھی ستارہ ٹوٹنے کا منظر تو دیکھا ہو گا جو آن واحد میں اپنے پیچھے روشنی کی ایک لمبی لکیر چھوڑتا ہوا نگاہوں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ مگر اس ہفتے اور اتوار کی درمیانی رات آپ روشنی کی لکیروں کی بارش کا نظارہ کر سکتے ہیں۔
یہ عمل جسے ہمارے ہاں ستارہ ٹوٹنا کہتے ہیں، ماہرین فلکیات کے مطابق اس وقت ہوتا ہے، جب کوئی شہابیہ زمین کے اتنا قریب آ جاتا ہے کہ زمین کی کشش ثقل اسے اپنی جانب کھینچ لیتی ہے۔ جیسے ہی وہ زمین کے فضائی کرہ میں داخل ہوتا ہے تو ہوا کی شدید رگڑ سے اس میں آگ لگ جاتی ہے اور وہ راستے ہی میں جل کر راکھ ہو جاتا ہے۔ جب وہ شعلوں سے لپٹا ہوا تیزی سے آگے بڑھ رہا ہوتا ہے تو وہ ہمیں روشنی کی لکیر بناتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
زمین کے گرد لپٹی ہوئی ہوا کی تہہ نہ صرف یہاں زندگی کی نمو میں اہم کردار ادا کرتی ہے بلکہ کرہ ارض کو شہابیوں کے حملوں سے بھی محفوظ رکھتی ہے۔
فلکیاتی سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ جب کوئی شہابیہ زمین کے کرہ فضائی میں داخل ہوتا ہے تو اس کی رفتار تقریباً 60 کلومیٹر فی سیکنڈ یعنی ایک لاکھ 33 ہزار میل فی گھنٹہ سے زیادہ ہوتی ہے۔ اس انتہائی تیز رفتار کے ساتھ جب شہابیے ہوا سے رگڑ کھاتے ہیں تو آناً فاناً ان میں آگ لگ جاتی ہے اور وہ لمحوں کے اندر راکھ بن جاتے ہیں۔ پھر یہ راکھ آہستہ آہستہ زمین پر گرتی ہے اور اس کی زرخیزی میں اضافہ کرتی ہے۔
تاہم بڑے سائز کے شہابیے جو ہوا کی تہہ سے گزرنے کے دوران مکمل طور پر جل نہیں پاتے اور ان کا بچا کچا حصہ زمین پر پہنچنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ لیکن ایسے مواقع شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آتے ہیں۔
شہابیے کے زمین کے انتہائی قریب پہنچنے کا ایک واقعہ 1908 میں روس کے علاقے تنگوسکا میں ہوا تھا۔ جس میں 30 میٹر قطر کا ایک شہابیہ فضا میں ہی پھٹ گیا تھا جس سے 2150 مربع کلومیٹر کے علاقے میں 8 کروڑ کے لگ بھگ درخت جل گئے تھے۔
شہابیے کے زمین سے ٹکرانے کا سب سے بڑا واقعہ قبل از تاریخ لگ بھگ ساڑھے چھ کروڑ سال پہلے پیش آیا تھا جس میں سائنس دانوں کے مطابق 10 سے 15 کلومیٹر قطر کا ایک شہابیہ زمین کے اس حصے سے ٹکرا گیا تھا جہاں اب میکسیکو واقع ہے۔ اس کے نتیجے میں زمین پر موجود تمام اقسام کی 70 فی صد حیات ختم ہو گئی تھی۔ اور ڈینوسار وں کی نسل کا مکمل طور پر خاتمہ ہو گیاتھا۔
لیکن زمین پر پہنچنے سے پہلے ہوائی کرہ سے گزرتے وقت شہابیے روشنی کے دلفریب نظارے پیش کرتے ہیں، جن میں کئی مناظر ایسے بھی ہوتے ہیں جو مدتوں یادوں میں تازہ رہتے ہیں۔ ایک ایسا ہی نظارہ ہفتے اور اتوار کی درمیانی رات کو آپ کو دعوت نگاہ دے رہا ہے۔
یہ منظر اس وقت دیکھنے میں آتا ہے جب زمین سورج کے گرد گردش کرتے ہوئے خلا میں ایک ایسے مقام سے گزرتی ہے جہاں لاتعداد شہابیے بھی سورج کے گرد ہی گردش کر رہے ہوتے ہیں۔
شہابیوں کو قدرتی خلائی فضلہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ چٹانوں کے چھوٹے بڑے ٹکڑے ہوتے ہیں جو کسی اجرام فلکی کے تباہ ہونے کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں۔ یہ ٹکڑے مختلف دھاتوں اور برف پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ان کا سائز چند میٹر سے لے کر ریت کے ذرات تک ہوتا ہے۔ یہ انتہائی تیز رفتار ہوتے ہیں۔
جب زمین شہابیوں کے اس جھرمٹ کے درمیان میں سے گزرتی ہے تو قریبی شہابیوں کو زمین کی کشش ثقل اپنی جانب کھینچ لیتی ہے اور وہ کرہ فضائی میں داخل ہو کر اپنے پیچھے روشنی کی لمبی لکیر چھوڑتے ہوئے نگاہوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔
زمین شہابیوں کے راستے میں 14 جولائی کو داخل ہوئی تھی اور یکم ستمبر کو اس سے باہر نکل جائے گی۔ 11 سے 14 اگست تک چونکہ چاند کا مہینہ ختم ہونے کے دن ہیں اور چاند کی روشنی انتہائی کم ہونے کی وجہ سے آسمان پر تاریکی ہو گی ، اس لیے ان راتوں میں شہابیوں کی بارش کا واضح اور روشن نظارہ کیا جا سکے گا۔
ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ آسمان پر روشینوں کی بارش کا منظر اس وقت دیکھنے میں آتا ہے جب ایک گھنٹے کے دوران 50 سے 100 کے درمیان شہابیے کرہ فضائی میں جلنے لگتے ہیں۔ ایسے موقع پر آسمان کی کسی ایک سمت میں روشنی کی لکیروں کا تسلسل کچھ اس طرح بندھ جاتا ہے جیسے بارش کے قطرے زمین پر گرتے ہیں۔ یہ عمل اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک کہ زمین شہابیوں کے جھرمٹ سے باہر نہیں نکل جاتی۔
فلکیاتی سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ روشینوں کا یہ شو ہفتے کی رات 11 بجے کے لگ بھگ شروع ہو گا اور اتوار کی صبح سورج طوع ہونے سے پہلے تک جاری رہے گا۔ طلوع آفتاب سے پہلے روشینوں کی بارش میں شدت آ جائے گی اور تقریباً 15 منٹ کے وقفوں کے بعد آسمان پر جگمگاتی روشن لکیروں کا نظارہ دیکھنے کو ملے گا۔ یہ مناظر دنیا کے ہر حصے سے دیکھے جا سکیں گے لیکن زمین کے شمالی نصف حصے بالخصوص براعظم امریکہ میں زیادہ روشن طور پر نظر آئیں گے۔