رسائی کے لنکس

پی ڈی ایم حکومت کے 16 ماہ معیشت کے لیے کیسے رہے؟


پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی حکومت کی آئینی مدت ختم ہو گئی ہےاور وزیرِ اعظم شہباز شریف کی تجویز پر بدھ کی شب صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے قومی اسمبلی تحلیل کر دی ہے۔

گزشتہ سال اپریل سے اقتدار سنبھالنے والی اتحادی حکومت اپنے 16 ماہ پر محیط دور کو معیشت کے حوالے سے مشکل قرار دے رہی ہے جب کہ اس عرصے میں ملک میں مہنگائی کی تاریخی لہر اور روپے کی قدر میں ریکارڈ گراوٹ بھی دیکھی گئی۔

مبصرین کا خیال ہے کہ ڈیڑھ سال سے بھی کم وقت میں مہنگائی نے شہریوں کی زندگیوں میں مشکلات کو مزید بڑھا دیا اور انہیں بہت کم ریلیف مل سکا۔

مالی سال 2022 کے اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو معیشت کے تینوں بڑے شعبوں میں پیداوار کم ہونے کی وجہ سے معیشت ایک سال میں 6.1 فی صد سے 0.29 فی صد تک سکڑ گئی۔ زراعت میں شرح افزائش 1.55 فی صد اور سروسز سیکٹر میں0.86 فی صد ریکارڈ کی گئی جب کہ صنعتی نمو کی رفتار منفی 2.94 فی صد رہی۔

سال کے دوران ترسیلاتِ زر، برآمدات، براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری اور غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر میں بھی نمایاں کمی دیکھنے میں آئی۔

اگر حکومت کی 12 ماہ کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو ایک سال میں ترسیلات زر میں13 فی صد سے زیادہ، برآمدات میں 14 فی صد، درآمدات میں 27 فی صد اور مجموعی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں 77 فی صد کی بڑی کمی دیکھی گئی۔

کیا پاکستان میں نگران حکومت غیر جانبدار ہوگی؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:07:42 0:00

البتہ درآمدات کم ہونے سے حکومت جاری کھاتوں کا خسارہ گزشتہ سال کی نسبت 85 فی صد کم کرنے میں کامیاب ہوئی جب کہ ٹیکسز کی وصولی میں بھی 16 فی صد اضافہ دیکھا گیا۔ لیکن مالی خسارے میں 34 فی صد کا بڑا اضافہ سامنے آیا۔

ان حالات میں قرضوں کی واپسی کے لیے حکومت کو غیرملکی زرِمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا سامنا رہا اور برآمدات کے مقابلے میں درآمدات 25 ارب ڈالر زیادہ ہونے اور دیگر وجوہات کی بنا پر روپے کی قدر میں تاریخی کمی دیکھی گئی۔

روپے کی قدر میں 50 فی صد سے زائد کی گراوٹ

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم کی حکومت کے 16 ماہ میں روپے کی قدرمیں بہت زیادہ کمی آئی۔ اتحادی حکومت جب برسرِ اقتدار آئی تھی تو اس وقت ایک امریکی ڈالر 185 روپے کا تھا جب کہ اب ایک امریکی ڈالر کی قیمت 285 روپے سے تجاوز کرچکی ہے۔

روپے کی قدر میں گراوٹ کے اثرات کے نتیجےمیں ملک میں افراطِ زر یعنی مہنگائی کی شرح گزشتہ سال کے مقابلے میں 17 فی صد زیادہ رہی جو ایک ریکارڈ ہے۔

روس سے خام تیل کی درآمد سے قیمتوں میں نمایاں کمی کے دعوؤں کے باوجود پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 16 ماہ کے دوران 120 روپے سےزیادہ کا اضافہ ہوا جس سے عوام کی پریشانی شدید ہوگئی۔

' معیشت کےبحران سے نمٹنے کے لیے حکمتِ عملی کا شدید فقدان'

اقتصادی تجزیہ کار ڈاکٹر عبدالعظیم کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پی ڈی ایم حکومت کو جس حال میں معیشت ملی وہ قرضوں کےانبار، اصؒلاحات کے فقدان، آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے ساتھ معیشت کو درپیش طویل المدت مسائل کے ساتھ پہلے ہی دشواریوں کا شکار تھی ۔لیکن 16 ماہ کے دوران معیشت سنبھلنے کے بجائے حالات مزید دگرگوں ہوگئے اور عام آدمی کی مشکلات میں اضافہ ہوا۔

ان کے خیال میں حکومت کے پاس شہریوں کو مہنگائی سے نکالنے اور بین الاقوامی ادائیگیوں کے بحران سے نمٹنے کے لیےکسی حکمتِ عملی کا شدید فقدان نظر آیا۔

ڈاکٹر عبدالعظیم کے مطابق حکومت کا تمام تر انحصار بیرونی فنڈنگ، آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی اور خسارے میں مبتلا توانائی جیسے شعبوں کے نقصانات کو پورا کرنے کے لیے قیمتیں بڑھانے کی طرف ہی نظر آیا جب کہ نقصان میں چلنے والے سرکاری اداروں میں نہ توکوئی اصلاحات لائی گئیں اور نہ ہی ان کی نجکاری ہوئی۔

'آئی ایم ایف پروگرام میں تعطل کا خمیازہ معیشت اور عام آدمی کو اٹھانا پڑا'

انہوں نے کہا کہ حکومت نے گزشتہ سال کے وسط میں آئی ایم ایف پروگرام بحال کروا کر بہتر سمت میں سفر تو شروع کیا، لیکن وزیرِ خزانہ کی تبدیلی کے بعد ملک میں مہنگائی پرقابو پانےکے لیے ایکسچینج ریٹ کو مصنوعی طریقے سے کنٹرول کرنے کی کوشش، مقررہ ہدف کے تحت محصولات جمع کرنے میں ناکامی، برآمدات میں کمی،اور مشکل سیاسی فیصلوں سے بچنے کے باعث آئی ایم ایف پروگرام 10 ماہ تک معطل رہا۔

ان کے بقول پروگرام کی معطلی کی قیمت معیشت اور عام آدمی کو ادا کرنا پڑی۔ تاہم حکومت کو ایک اور موقع اس وقت ملا جب آئی ایم ایف نے کڑی شرائط کے ساتھ اسٹینڈ بائی پروگرام منظور کیا۔

ڈاکٹر عبدالعظیم کے مطابق آئی ایم ایف کی کڑی شرائط پر عمل درآمد کے باوجود آئندہ کئی برسوں تک حکومت کو فنڈ سے مزید پروگرام حاصل کرناپڑ سکتے ہیں۔ یوں اسٹینڈ بائی ایگریمنٹ معیشت کو بہتر کرنے کے مترادف نہیں ہے، بلکہ معیشت کو اس گرداب سے نکالنے کے لیے ابھی طویل راستہ باقی ہے جو شاید ابھی شروع بھی نہیں ہوا ہے۔

انہوں نے اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے مزید کہا کہ اس سب کے لیے طویل سیاسی استحکام، طویل المدتی معاشی پالیسیوں پر سختی سے عمل درآمد، ٹیکس نہ دینے والی اشرافیہ کو ٹیکس نیٹ کے اندر لانا، اور حکومت کے شاہانہ انداز کو بدلنے سمیت مؤثر افرادی قوت تیار کرنا بنیادی شرائط ہیں۔

'معاشی اصؒلاحات کے لیے سیاسی عزم کی کمی ہے'

تجزیہ کار اورکالم نگار ڈاکٹر فرخ سلیم کہتے ہیں کہ معیشت کی بحالی کے لیے ملک کی حکمران اشرافیہ کے اندر ایک پُرعزم اور فیصلہ کن اتفاق رائے ضروری ہے۔

ان کے بقول معیشت کو بہتر بنانے کے لیے پی ڈی ایم دورِ حکومت میں بھی سیاسی عزم کی کمی نظر آئی۔ یہی وجہ ہے کہ معیشت ایمرجنسی وارڈ سے باہر نہیں آ رہی۔امحض سیاسی استحکام ہی معیشت کو خود بدلنے کے لیے کافی نہیں بلکہ ا س کے لیے ایسی معاشی پالیسیاں تشکیل دے کر غیر متزلزل عزم اپنانے کی اشد ضرورت ہے جس سے معاشی اداروں کو مضبوط کیا جاسکے۔

دوسری جانب حکومت کا کہنا ہے کہ 16 ماہ کی کارکردگی کے نتیجے میں جامع ترقی کا سفر شروع ہوچکا ہے۔

حکومت کا مؤقف ہے کہ اس نے چین پاکستان اقتصادی راہداری یعنی سی پیک کو بحال کرکے تعطل کے شکار منصوبوں کی تکمیل اور نئے منصوبوں کا آغاز کیا ہے اور چین کے نائب وزیراعظم کے حالیہ دورۂ اسلام آباد میں زراعت، صنعت، آئی ٹی، سماجی اور انسانی ترقی میں تعاون کے لیے نئے مفاہمت ناموں پر دستخط بھی کیے گئے ہیں۔

اس سلسلے میں حکومت نے موجودہ مالی سال میں ترقیاتی بجٹ 550 ارب سے بڑھا کر 1150 ارب روپے رکھا ہے۔گزشتہ سال اس مد میں 741 ارب روپے خرچ کیے گئے۔

حکومت کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ سماجی شعبوں، نوجوانوں کی فلاح و بہبود، زراعت کی ترقی اور دیگر منصوبوں سے ترقی کا رکا ہوا سفر شروع کرکے معیشت کو صحیح سمت کی جانب موڑ دیا گیا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG