سابق صدرِ پاکستان اور آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف کو کراچی کے فوجی قبرستان میں سپردِ خاک کر دیا گیا ہے۔ سابق فوجی ڈکٹیٹر کی نمازِ جنازہ میں حاضر سروس اور ریٹائر فوجی افسران سمیت سیاسی شخصیات نے بھی شرکت کی۔
ملیر کینٹ میں نمازِ جنازہ کی ادائیگی کے بعد انہیں کراچی کنٹونمنٹ بورڈ کے فوجی قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا۔
ان کی میت کو دیکھ کر مجھے ان کی وہ تقریر یاد آ گئی جو اُنہوں نے اپنے دور ِاقتدار میں مزارِ قائد سے متصل پارک کے افتتاح پر کی تھی۔
اس تقریر کے دوران اور اس سے پہلے اور بعد میں بھی وہ کئی بار کراچی سے اپنے تعلق پر فخر کرتے تھے۔
مبصرین کے مطابق کراچی میں بلدیاتی حکومت چاہے نعمت اللہ خان کی ہو یا مصطفیٰ کمال کی، پرویز مشرف نے مقامی حکومتوں کی بھرپور مدد کی اور انہیں وفاق سے ہر ممکن مالی امداد پیش کی۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی میں ان کے چاہنے والوں کی تعداد ملک کے دیگر حصوں سے زیادہ ہی رہی ہے۔
لیکن 12 اکتوبر 1999 سے 18 اگست 2008 تک مسند اقتدار پر رہنے والے پرویز مشرف کا رعب و دبدبہ اور ان کے اندازِ حکمرانی سے آج ان کا جنازہ یکسر مختلف تھا۔
جنازہ گاہ میں ایک ہی بڑا ٹینٹ لگایا گیا تھا جس میں دو ہزار کے لگ بھگ لوگ شریک تھے۔ ان میں سے بھی 70 فی صد یونیفارم میں ملبوس فوجی تھے اور بقیہ 30 فی صد میں سے اکثر ریٹائرڈ فوجی، پرویز مشرف کے انتہائی قریبی رفقائے کار اور بعض سیاسی رہنما تھے۔
نماز جنازہ میں متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما مصطفیٰ کمال ، ڈاکٹر فروغ نسیم، وفاقی وزیر سید امین الحق، سابق گورنر سندھ معین الدین حیدر اور سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری، سابق گورنر عمران اسماعیل اور دیگر نے شرکت کی۔
فوج کی نمائندگی چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی جنرل ساحرشمشاد مرزا نے کی جب کہ اس کے علاوہ دو سابق آرمی چیفس اشفاق پرویز کیانی اور حال ہی میں ریٹائر ہونے والے قمر جاوید باجوہ کے علاوہ فوج کی خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہان لیفٹننٹ جنرل (ر) شجاع پاشا اور لیفٹننٹ جنرل (ر) ظہیر اسلام اور سابق ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ بھی نظر آئے۔
جنازے میں شریک افراد کو موبائل فونز اپنی گاڑیوں میں ہی رکھنے کی ہدایت کی گئی تھی۔
جنازے میں شریک ایک صحافی عادل جواد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کہیں سے ایسا نہیں لگ رہا تھا کہ ایسے شخص کی تدفین ہو رہی ہے جو ایک وقت میں ملک کے سیاہ و سفید کا مالک تھا۔
انہوں نے بتایا کہ زیادہ تر وہی افراد نمازہ جنازہ میں شریک تھے جو دوران حیات یا تو پرویز مشرف کے بہت قریب تھے یا پھر ان کا فوج میں سابق صدر کے ساتھ کوئی تعلق تھا۔
جنازے میں شریک سابق گورنر سندھ لیفٹننٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر کا کہنا تھا کہ جنرل مشرف نے بڑی بھرپور زندگی گزاری۔
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار یہ کہتے سنائی دیے کہ پرویز مشرف مشکل فیصلے لینے کے ماہر تھے اور وہ جو فیصلہ لیتے اس کے اثرات نظر آتے تھے۔
اسی طرح ایک بزنس مین کا یہ کہنا تھا کہ سابق صدر کے دور میں بہرحال معاشی حالات آج کے جمہوری دور سے تو کہیں بہتر نظر آتے تھے۔ ملک میں دولت کی ریل پیل تھی اور ان کے بقول دنیا بھر سے دہشت گردی کی جنگ کے بعد ملنے والی امداد ملک میں ترقیاتی کاموں میں لگتی ہوئی نظر بھی آتی تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
جنرل مشرف کی میت انتہائی خاموشی سے کراچی کے ملیر کینٹ منتقل کردی گئی تو مجھے اچانک وہ وقت یاد آگیا جب مارچ 2013 کی ایک شام کو جنرل مشرف خود ساختہ جلاوطنی ختم کرکے وطن واپس آئے تھے تو ایئرپورٹ پر میڈیا کے کیمروں کا رش تھا۔
ان کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ (اے پی ایم ایل) کے پرچموں کی بہار تھی اور انہیں امید تھی کہ سوشل میڈیا پر ان کے لاکھوں فالورز اب ایئرپورٹ پر بھی پہنچیں گے اور ان کا پُرتپاک استقبال کریں گے۔
اس وقت پرویز مشرف ایئرپورٹ کے مہران لاؤنج سے باہر آئے تو اپنے مخصوص انداز سے مُکّا لہرا کر آنے والوں کو بتارہے تھے کہ اے پی ایم ایل آنے والے الیکشنز میں بھرپور طاقت کے ساتھ الیکشن لڑے گی۔ لیکن اس کے بعد کیا ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے اور انہیں جلد ہی واپس جانا پڑا۔