پاکستان کے شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخواہ کے مرکزی شہر پشاور میں منگل کی صبح فوج کے زیر انتظام ایک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے میں 132 بچوں سمیت 145 افراد ہلاک ہوئے۔
حملے میں ایک سو زائد بچے زخمی بھی ہوئے ہیں جنہیں اسپتال منتقل کیا گیا جہاں اکثر کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔
فوج کے ترجمان میجر عاصم باجوہ نے صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ تمام دہشت گرد مارے جا چکے ہیں اور اسکول کو کلئیر کر دیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ حملہ کرنے والے عسکریت پسندوں سے جو اسلحہ ملا وہ کئی دنوں تک لڑائی کے لیے کافی تھا۔
اس قبل صوبہ خیبر پختونخواہ کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے بتایا کہ ’فرنٹیئر کور‘ کی وردی میں ملبوس آٹھ سے دس دہشت گرد اسکول میں داخل ہوئے۔
Your browser doesn’t support HTML5
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ’آئی ایس پی آر‘ کے بیان کے مطابق سکیورٹی فورسز اور حملہ آوروں کے درمیان کئی گھنٹوں تک فائرنگ کا تبادلہ جاری ہے اور منگل کی شام کو سکیورٹی ذرائع کے مطابق نو حملہ آوروں کو ہلاک کرنے کے بعد یہ آپریشن مکمل ہو گیا۔
کارروائی میں کم ازکم سات سکیورٹی اہلکاروں کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
صوبہ خیبر پختونخواہ کے وزیر اطلاعات مشتاق غنی نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ اسکول میں ’جونیئر اور سینیئر‘ سیکشن میں زیر تعلیم بچوں کی تعداد لگ بھگ 2500 تھی۔
اُنھوں نے بتایا کہ ایک خودکش بمبار نے بھی اپنے جسم سے بندھے بارودی مواد میں دھماکا کیا جو ہلاکتوں میں اضافے کا سبب بنا۔
ماضی میں کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے عسکریت پسند خیبر پختونخواہ اور اس کے قبائلی علاقوں میں اسکولوں پر حملے اور ان عمارتوں کو دھماکا خیز مواد سے اڑاتے رہے ہیں۔
پاکستانی فوج نے 15 جون سے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں ملکی و غیر ملکی شدت پسندوں کے خلاف "ضرب عضب" کے نام سے بھرپور کارروائی شروع کر رکھی ہے جس میں 1200 سے زائد شدت پسند ہلاک ہو چکے ہیں۔
بعد ازاں اکتوبر میں خیبر ایجنسی میں یہ خیبر ون کے نام سے شدت پسندوں کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا۔
ان فوجی کارروائیوں کے ردعمل میں ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردانہ واقعات رونما ہو چکے ہیں جن میں سرکاری املاک اور سکیورٹی فورسز پر حملے بھی شامل ہیں۔