خیبر پختونخوا حکومت نے پشاور بس منصوبے کے بارے میں ایک روز قبل سنائے جانے والے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ایڈوکیٹ جنرل شمائل احمد بٹ نے وائس آف امریکہ کے ساتھ مختصر بات چیت میں صوبائی حکومت کے اس فیصلے کی تصدیق کی۔ تاہم، انھوں نے صوبائی حکومت کے اس فیصلے کے بارے میں مزید تفصیلات بتانے سے گریز کیا۔
پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس وقار احمد سیٹھ نے جمعرات کی شام بس منصوبے کے بارے میں فیصلہ جاری کرتے ہوئے وفاقی تحقیقاتی ادارے، ایف آئی اے کو 35 دنوں کے اندر اندر تحقیقات مکمل کرنے اور رپورٹ جمع کرنے کا حکم دیا ہے۔
پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کے جاری کردہ فیصلے میں پشاور کے مشھور زمانہ بس منصوبے، بی آر ٹی کے بارے میں کئی سوالات اُٹھائے ہیں اور کہا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت نے ضروری منصوبہ بندی کے بغیر بی آر ٹی منصوبہ شروع کیا۔
عدالتی فیصلے میں ٹرانس پشاور کے سی اِی او کو عہدے سے ہٹانے کے بارے میں بھی سوال کیا گیا ہے۔
چیف جسٹس نے حکومت پنجاب کی بلیک لسٹ کردہ کمپنی کو بی آر ٹی کا ٹھیکہ دینے کے بارے میں بھی استفسار کیا۔ اسی طرح، عدالت نے اس منصوبے کیلئے بڑا قرضہ لینے کی ضرورت کے بارے میں بھی سوالات اٹھائے ہیں اور پی سی ون میں ’’غیر متعلقہ اسٹاف کیلئے پرکشش تنخواہیں رکھنے‘‘ پر اعتراض کیا ہے۔
اسی طرح ایڈیشنل چیف سیکریٹری اور وزیر اعلیٰ کے پرنسپل سیکریٹری سے اس منصوبے کے لئے مختص کردہ فنڈز سے ادائیگی کی قانونی حیثیت اور اس منصوبے سے پشاور کے رہائشیوں کیلیے تکلیف کا باعث بننے کے بارے میں پوچھا گیا ہے۔
پشاور قومی جرگے میں شامل تاجر اور کاروباری شخصیت خالد ایوب نے صوبائی حکومت کے اس اقدام کو خوش آئندہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ 46 ارب روپے کی لاگت سے شروع ہونے والے اس منصوبے کے اخراجات میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ لہٰذا، عدالت کا فرض بنتا ہے کہ وہ حکومت سے پوچھے کہ کس طرح یہ اخراجات بڑھ گئے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ کی طرح سپریم کورٹ آف پاکستان سے بھی پشاور کے شہری انصاف کی توقع رکھتے ہیں۔
اکتوبر 2017میں لگ بھگ 49 ارب لاگت سے شروع کیے جانے والے بس منصوبے کو سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے چھ مہینوں کے اندر مکمل کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ تاہم، ابھی تک اس منصوبے پر کام جاری ہے۔
صوبائی وزیر اطلاعات شوکت علی یوسفزئی نے چند روز قبل منصوبے کو آئندہ سال کے فروری کے مہینے میں مکمل ہونے کا دعویٰ کیا۔ لیکن، ماہرین کے بقول، یہ منصوبہ کسی بھی طور پر آئندہ فروری تک مکمل نہیں ہو سکتا۔ دوسری طرف، اس منصوبے کی تعمیر پر اُٹھنے والے اخراجات 80 ارب روپے سے تجاوز کر گئے ہیں۔