پشاور کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج سید شوکت اللہ شاہ نے اسلام آباد عورت مارچ کے منتظمین کے خلاف پشاور کے تھانہ شرقی میں مقدمہ درج کرنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔ان پر مبینہ طور پر عورت مارچ کے دوران 'گستاخانہ' نعرہ بازی کرنے، توہین آمیز بینرز اور پوسٹرز کی نمائش کے الزامات ہیں۔
عدالت نے وکلا ابرار حسین، اسرار حسین اور کاشف احمد ترکئی کی جانب سے دائر کردہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 22 اے کی خلاف ورزی کی درخواست کی سماعت کی۔ سماعت کے موقع پر درخواست گزاروں کے وکلا اجمل کے مہمند اور گوہر سلیم نے عدالت کو بتایا کہ 8 مارچ کو اسلام اباد میں عورت مارچ کے دوران 'گستاخانہ' نعرہ بازی ہوئی اور 'توہین آمیز' بینرز اور پوسٹرز کی نمائش ہوئی جس کی وجہ سے درخواست گزاروں سمیت کئی مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی کیونکہ مذکورہ نعرہ بازی اور متنازع پوسٹرز اور بینرز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے اور انہیں دیکھ کر ان کی دل آزاری ہوئی ہے۔
درخواست گزاروں نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ مارچ کے منتظمین کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے لیے پولیس کو احکامات جاری کرے۔
عدالت نے درخواست پر دلائل مکمل ہونے کے بعد تھانہ شرقی پشاور پولیس کو درخواست گزاروں کے موقف کے مطابق مارچ کے منتظمین کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے لیے احکامات جاری کر دیے۔
تاہم، وکلا کی درخواست میں اور نہ ہی عدالت کے دو صفحات پر مبنی مختصر حکم میں ملزمان کے نام یا شناخت کے بارے تفصیلات موجود ہے۔
درخواست گزار وکلا میں شامل اجمل خان مہمند نے رابطے پر وائس آف امریکہ کے ساتھ بات چیت میں تصدیق کی کہ انہوں نے دائر کردہ درخواستوں میں ملزمان کے نام اور شناخت کے بارے میں کچھ نہیں لکھا ہے۔ ان کے بقول منتظمین کے نام اور شناخت پچھلے آٹھ مارچ کو منعقد کی جانے والے واک اور تقریبات میں لگوائے گئے بینروں سے معلوم ہو سکتی ہے۔
پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن نے ایک ٹویٹ میں پشاور کے مقامی پولیس تھانے کو عورت آزادی مارچ کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے احکامات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
جب کہ عورت آزادی مارچ اسلام آباد کے منتظمین نے ٹویٹر پر پشاور کے عدالتی احکامات پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے ایک مفصل بیان میں درخواست گزاروں کی تعزیرات پاکستان کی دفعہ 22 A کے تحت لگائے گئے الزامات کو بد نیتی پر مبنی قرار دیا ہے۔
عورت آزادی مارچ کے اس بیان میں یاد دلایا گیا ہے کہ آٹھ مارچ کے فوراً بعد جب اس قسم کے 'بیہودہ' الزامات لگوائے گئے تو وزیر اعظم کے مشیر برائے مذہبی امور علامہ طاھر اشرفی اور وفاقی وزیر چوہدری فواد نے ویڈیوز تبدیل کر کے سوشل میڈیا پر پھیلانے والوں کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ ایک حساس مسئلہ ہے اور اس سلسلے میں بغیر ثبوت اور شواہد کے الزامات لگوانا درست نہیں۔
عورت آزادی مارچ کے جاری کردہ بیان میں یاد دلایا گیا ہے کہ ملک میں مذہبی انتہا پسندی عروج پر ہے اور پشاور کے عدالتی احکامات ان خواتین کے مسائل اور مشکلات میں اضافے کا سبب بن سکتے ہیں جو پہلے ہی سے جائز آئینی اور قانونی حقوق سے محروم اور ظلم و ستم کا شکار ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے چند روز قبل وزیراعظم پاکستان کو ایک خط کے ذریعے ایسے افراد کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے جو اس معاملے کو بے بنیاد رنگ دے رہے ہیں۔
بیان میں عورت آزادی مارچ نے مطالبہ کیا کہ اس سے پہلے کہ حالات قابو سے باہر ہو جائیں حکام اپنی ذمہ داری پوری کریں۔ خیبر پختونخوا پولیس، سول انتظامیہ اور منتخب قیادت سے بھی ذمہ داری پوری کرنے کا مطالبہ کیا گیاہے کہ وہ عدالت کو بتائیں کہ دفعہ 22A کے تحت لگائے گئے الزامات بد نیتی پر مبنی ہیں۔
سینئر صحافی وسیم احمد شاہ کا کہنا ہے کہ مقدمہ درج کرنے کے بعد پولیس مزید تحقیقات میں ملزمان کے نام اور شناخت مقدمے کی رپورٹ میں شامل کرے گی۔ انہوں نے کہا اب دیکھنا یہ ہے کہ کس طرح پشاور کے ایک تھانے کا عملہ اسلام آباد میں ہونے والی تقریب کی کارروائی اور اس میں شریک افراد یا منتظمین کے بارے میں تحقیقات کرے گی۔
وسیم احمد شاہ کا کہنا ہے کہ ظاہر ہے کہ اس فیصلے کے تحت اس سال آٹھ مارچ کو منعقد ہونے والے تقریباًت کے منتظمین کے خلاف 'توہین مذہب' کی دفعات کے تحت ہی مقدمات درج کیے جائے گے اور عدالتی کارروائی کی جائے گی۔
چند برس قبل ایک نجی ٹیلی وژن کی ایک خاتون اینکر کے خلاف بھی اسی قسم کے ایک الزام میں مقدمہ درج کیا گیا تھا مگر استغاثہ عدالتی کارروائی میں عائد کئے گئے الزامات کو ثابت نہیں کر سکا تھا۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ وہ عدالتی احکامات پر عملدر آمد کرنے کے پابند ہیں اور اعلی حکام کے ساتھ مشاورت کے بعد مقدمہ درج کر کے مزید کارروائی شروع کی جائے گی۔