پاکستانی یوٹیوبر، مذہبی رہنما انجینئر محمد علی مرزا اتوار کے روز جہلم میں قاتلانہ حملہ میں بال بال بچ گئے۔ پولیس نے محمد علی مرزا پر حملہ آور نوجوان شہزاد کو گرفتار کر کے ایف آئی آر درج کر لی ہے جس کے مطابق ملزم کا تعلق لاہور سے ہے۔
انجینئیر محمد علی مرزا کا کہنا ہے کہ انہیں پولیس کی طرف سے ابتدائی طور پر بتایا گیا ہے کہ ان پر حملہ کرنے والے نوجوان کو "اس کے 'مفتی' کی جانب سے انہیں قادیانی (احمدی) کہہ کر قتل پر اکسایا گیا تھا'۔ تاہم انجینئر محمد علی مرزا کا کہنا ہے کہ ان کا تعلق احمدی فرقے سے نہیں ہے۔
اطلاعات کے مطابق، جہلم سے تعلق رکھنے والے انجینئر محمد علی مرزا اپنی قائم کردہ قرآن اکیڈمی میں ہفتہ وار میٹنگ کے لیے موجود تھے، جہاں مبینہ حملہ آور بھی آگیا اور علی مرزا کے ساتھ تصویر بنوانے کی درخواست کی اور تصویر بنانے کے دوران چاقو سے محمد علی مرزا کو قتل کرنے کی کوشش کی، حملہ کے دوران مزاحمت پر محمد علی مرزا کا ایک بازو زخمی ہوا، جب کہ وہاں موجود دیگر افراد نے حملہ آور کو قابو کر کے پولیس کے حوالے کر دیا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انجینئر محمد علی نے کہا کہ ان پر حملہ کرنے والے ایسے لوگ ہیں جو اختلافی آواز کو دبانے کے قائل ہیں، اور اختلافی آواز کسی کی بھی ہو، اسے خاموش کروا دیا جاتا ہے۔
انجینئر محمد علی نے کہا کہ ایسا صرف علمائے کرام کی حد تک نہیں، بلکہ ریاستی اداروں میں بھی ہو رہا ہے کہ اختلافی آوازوں کو روکا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کسی کو کسی سے اختلاف ہے، تو ملک بھر میں عدالتیں کام کر رہی ہیں، لوگوں کے پاس اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے اور کسی کے بھی خلاف قانونی کارروائی کا حق ہے ، لیکن اس کے بجائے تشدد کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ بقول ان کے، اسی رویے کے خلاف لڑ رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ اختلافی مسائل کو مل بیٹھ کر بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ مردان میں قتل ہونے والے مشال خان کے قتل پر بھی انہوں نے اختلاف کیا، جس پر انہیں دھمکیاں دی گئیں۔ بقول ان کے اسلام یہ نہیں کہتا کہ کسی کو اس کے مذہب کی بنیاد پر قتل کر دیا جائے، اگر کوئی اپنے آپ کو سچا سمجھتا ہے، تو پھر کسی پر تشدد کیوں کرنا، اسے دلیل کے ساتھ قائل کرلیں۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ دنوں میں انہوں نے عورت مارچ کے حوالے سے بھی بات کی تھی۔ بقول ان کے عورت مارچ کے شرکا کے نعروں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن ہمارے معاشرے میں عورت کو پاؤں کی جوتی بنا کر رکھا گیا ہے، جس کا ردعمل تو آنا تھا۔
انجینئر محمد علی کون ہیں؟
انجینئر محمد علی گذشتہ کئی برسوں سے یوٹیوب پر اپنی ویڈیوز اپ لوڈ کر رہے ہیں جن میں وہ مختلف مذہبی مسائل کے حوالے سے لیکچر دیتے رہتے ہیں۔ ان کے بارے میں مختلف لوگ مخالف رائے رکھتے ہیں اور ان کے مذہبی نظریات پر سوال اٹھاتے رہتے ہیں۔
انجینئیر محمد علی مرزا کہتے ہیں کہ وہ صرف مسلمان ہیں۔ جتنے بھی فرقے ہیں انہیں آپس میں بات چیت کے ذریعے اختلافی مسائل کو حل کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ وہ تو کہتے ہیں کہ شیعہ علما اہل سنت کی مساجد میں اور اہل سنت علما شیعہ مساجد میں جا کر اپنا نقطہ نظر بیان کریں اور اپنا موقف ایک دوسرے کو سمجھائیں۔
محمد علی مرزا پر اس سے قبل سال 2017 میں بھی ایک قاتلانہ حملہ ہوا تھا۔
یاد رہے کہ مئی 2020 میں جہلم پولیس نے انجینئر محمد علی مرزا کو مذہبی منافرت اور مختلف علمائے کرام کے خلاف شر انگیزی پھیلانے کے الزام میں گرفتار کر کے مقدمہ درج کر لیا تھا، لیکن عدالت نے ان کی ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کر دیا تھا۔
تھانہ سٹی پولیس کے مطابق انجینئر محمد علی مرزا پر مختلف علمائے کرام کے خلاف مذہبی اشتعال انگیزی کا الزام تھا۔
بعد ازاں انجینئر محمد علی مرزا نے گرفتاری کا موجب بننے والی کلپ کے بارے میں ایک ویڈیو جاری کی جس میں ان کا کہنا تھا کہ جس کلپ کو بنیاد بنا کر ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی گئی وہ دراصل تین سال پرانی ویڈیو کا حصہ ہے جس کو سیاق وسباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا تھا۔
اس ویڈیو میں ان کے بقول انہوں نے پیری مریدی کی شرعی حیثیت پر مذہبی لٹریچر کے حوالے سے گفتگو کی تھی۔
محمد علی مرزا کے یوٹیوب پر چودہ لاکھ 50 ہزار سے زائد سبسکرائبر موجود ہیں اور ان کی ویڈیوز لاکھوں مرتبہ دیکھی جاچکی ہیں۔ محمد علی مرزا پیشہ کے اعتبار سے مکینیکل انجینئر اور وزارت دفاع میں 19ویں گریڈ کے افسر ہیں۔
یوٹیوب کے ساتھ ساتھ محمد علی مرزا نے اپنی ویب سائٹ بھی بنا رکھی ہے جب کہ فیس بک اور ٹوئٹر پر بھی ان کے لاکھوں سبسکرائبر موجود ہیں۔
محمد علی مرزا کہتے ہیں کہ وہ ان حملوں سے خوفزدہ نہیں ہیں۔ ان کے بقول وہ جانتے ہیں کہ لوگ ان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ اختلاف رائے اور دلیل کے ساتھ بات کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔