سپریم کورٹ آف پاکستان نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلوں کو معطل کرتے ہوئے دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ملزمان کو رہا نہ کرنے کا حکم دیا ہے۔
خیبر پختونخوا کے سینئر وکیل لطیف آفریدی نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے مبینہ دہشت گردوں کو پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے بری کرنے کے فیصلے کا از سر نو جائزہ لیگا اور اس توقع کا اظہار کیا کہ نومبر کے آخر تک سپریم کورٹ کا فیصلہ آ جائیگا۔
’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے لطیف آفریدی نے کہا کہ پچھلے چند برسوں کے دوران مختلف فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف لگ بھگ 73 سزا یافتہ ملزمان نے پشاور ہائی کورٹ میں اپیلیں دائر کر رکھی تھیں اور پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں بینج نے ان تمام اپیلوں کو منظور کرتے ہوئے فوجی عدالتوں کے فیصلوں کو کالعدم اور گرفتار افراد کی رہائی کا حکم دیا تھا۔ تاہم، بعد میں فوج نے وزات دفاع کے ذریعے سپریم کورٹ آف پاکستان میں پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کیا اور سپریم کورٹ آف پاکستان نے وزارت دفاع کی رٹ کو منظور کرتے ہوئے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کردیا۔
لطیف آفریدی نے کہا کہ اب سپریم کورٹ آف پاکستان ان تمام مقدموں کو یکجا کرکے اس کا دوبارہ جائزہ لیگا۔ فوجی عدالتوں کی جانب سے دائر شواہد اور اقبال جرم کے تمام بیانات کا جائزہ بھی لیا جائیگا اور اس بارے میں صفائی کے وکلاء کے موقف کو سننے کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان فیصلہ کریگا۔
فوجی عدالتوں کا قیام پشاور کے آرمی پبلک سکول پر 16 دسمبر2014 کو ہونے والے حملے کے بعد عمل میں آیا تھا اور ان عدالتوں کا مقصد دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ملزمان کے مقدموں کا جلد از جلد فیصلہ اور جرم ثابت ہونے پر فوری طور پر سزائیں دینا تھا۔