پشاور ہائی کورٹ نے انسانی حقوق کے سرگرم کارکن ادریس خٹک کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمے کی سماعت روکنے کا حکم دیا ہے۔
پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سیٹھ وقار احمد اور جسٹس ناصر محفوظ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے جمعرات کو سینئر وکیل لطیف آفریدی کی دائر کردہ درخواست پر سماعت کی۔
عدالت نے ادریس خٹک کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ روکنے کا حکم دیتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو نوٹسز جاری کر دیے ہیں۔
تاہم اب تک حکومت کی جانب سے پشاور ہائی کورٹ کے اس حکم پر کسی قسم کا ردِ عمل سامنے نہیں آیا ہے۔
ادریس خٹک کی پیروی کرنے والے وکلا کی ٹیم میں شامل طارق افغان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اُن کے موکل گزشتہ برس اسلام آباد سے نوشہرہ گھر واپس آتے ہوئے ڈرائیور سمیت پر اسرار طور پر غائب ہو گئے تھے۔
ان کے بقول ادریس خٹک کی گمشدگی کے بعد اُنہوں نے پشاور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس کے جواب میں وزارتِ دفاع نے ادریس خٹک کی اپنی تحویل میں موجودگی کی تصدیق کی تھی۔
SEE ALSO: ایمنسٹی کا انسانی حقوق کے گمشدہ کارکن ادریس خٹک کی عدالت میں پیشی کا مطالبہطارق افغان نے بتایا کہ چند ہفتے قبل وفاقی وزارتِ داخلہ کے ایک نمائندے نے پشاور ہائی کورٹ میں ایک سربمہر لفافہ جمع کرایا تھا جس میں تصدیق کی گئی تھی کہ ادریس خٹک کے خلاف جہلم کی ایک فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔
طارق افغان نے کہا کہ اس سلسلے میں اُنہوں نے ایک عدالتی درخواست کے ذریعے حکومت کے اس اقدام کی مخالفت کی اور بتایا کہ کسی بھی سول شہری کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ نہیں چلایا جاسکتا۔
عدالت نے ان کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے وفاقی حکومت کے ذریعے فوجی عدالت میں مقدمے کی سماعت روکنے کا حکم دیا ہے۔
طارق افغان کے بقول ہم نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ ادریس خٹک کے خلاف دائر الزامات بے بنیاد ہیں اس لیے انہیں فی الفور رہا کیا جائے۔
ادریس خٹک کی پر اسرار طور پر گمشدگی، حراست اور درج مقدمات پر پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن کے علاوہ انسانی حقوق کے تحفظ کے عالمی اداروں نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔