انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے انسانی حقوق کے گمشدہ کارکن ادریس خٹک کو عدالت میں پیش کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستان کی حکومت کو ایک خط ارسال کیا ہے جس میں ادریس خٹک کے بارے میں مزید تفصیلات جاری کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں عدالت میں پیش کرنے کا مطالبہ شامل ہے۔
خیال رہے کہ ادریس خٹک کے بیٹی طالیہ خٹک نے والد کی گمشدگی کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی جس کے جواب میں دو روز قبل سرکاری عہدیداروں نے بیان جمع کرایا کہ ادریس خٹک ان کے تحویل میں ہیں جب کہ ان کے خلاف آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت کارروائی کی جا رہی ہے۔
عید الفطر پر طالیہ خٹک نے ایک ویڈیو بھی جاری کی تھی جس میں انہوں نے وزیرِ اعظم عمران خان اور انسانی حقوق کی وفاقی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری سے والد کی بازیابی کی اپیل کی تھی۔
طالیہ خٹک والد پر لگائے گئے الزامات کو بے بنیاد قرار دے رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اُن کے والد ذیابیطس کے مریض ہیں جب کہ انہیں روزانہ دوا کی ضرورت ہوتی ہے۔
ضلع نوشہرہ کے قصبے سیدو سے تعلق رکھنے والے ادریس خٹک گزشتہ سال 13 نومبر کو اس وقت پر اسرار طور پر غائب ہو گئے تھے جب وہ اسلام آباد سے واپس خیبر پختونخوا آ رہے تھے۔ وہ قوم پرست سیاسی جماعت نیشنل پارٹی (این پی) کے خیبر پختونخوا کے صوبائی سیکرٹری جنرل بھی ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت انسانی حقوق کی بین الاقوامی اور ملکی تنظیموں نے ادریس خٹک کی گمشدگی کی مذمت کی تھی اور انہیں بازیاب کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، پشتون تحفظ تحریک اور دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے بھی ادریس خٹک کی پراسرار گمشدگی پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور حکومت سے اس کی فوری بازیابی کا مطالبہ کیا تھا۔
آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت کارروائی کے حوالے سے ادریس خٹک کے قریبی ساتھی قیصر خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عجیب بات ہے کہ سرکاری اداروں نے ادریس خٹک پر ایک ایسا الزام لگایا ہے جو بالکل درست نہیں ہے۔
قیصر خان نے کہا کہ ادریس خٹک نہ تو سرکاری ملازم ہیں اور نہ ان کا کسی سرکاری دفتر آنا جانا یا کسی بڑے سرکاری افسر سے ملنا جلنا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ادریس خٹک آٹھ ماہ سے سرکاری اداروں کی تحویل میں ہیں۔ اس طرح تو سرکاری افسران قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔
نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر مختار باچہ کا کہنا ہے کہ ادریس خٹک کی غیر قانونی و جبری گمشدگی کے خلاف اور عدالت میں پیشی کے لیے پشاور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر رہے ہیں۔
مختار باچہ نے بتایا کہ فوج کے ماتحت خفیہ ادارے نے سپریم کورٹ میں ادریس خٹک کے ان کی تحویل میں ہونے کی تصدیق کی۔ یہ بھی کہا گیا کہ ایک سرکاری عہدیدار مزید تفصیل فراہم کرے گا۔ مگر تاحال کسی سرکاری افسر نے تفصیل فراہم نہیں کی۔
قبل ازیں انسانی حقوق کمیشن کے سابق سربراہ اور عوامی نیشنل پارٹی کے سابق سینیٹر افراسیاب خٹک نے ادریس خٹک کی فوری بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ادریس خٹک ایک سماجی کارکن ہیں۔ اگر ان کے خلاف کوئی الزام یا ثبوت ہے تو انہیں عدالت میں پیش کرکے باقاعدہ مقدمہ چلایا جائے۔
خیال رہے کہ بشری علوم میں روس سے پی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹر ادریس خٹک انسانی حقوق کے تحفظ کی بین الاقوامی تنظیموں سے وابستہ رہے ہیں۔ اس دوران انہوں نے خیبر پختونخوا اور ملحقہ قبائلی اضلاع میں پر اسرار طور پر گمشدہ افراد پر متعدد مفصل رپورٹس لکھی تھیں۔
ادریس خٹک کے اہلیہ کا انتقال ہو چکا ہے جب کہ ان کی ایک بیٹی شادی شدہ ہیں جب کہ دوسری انجنیئرنگ یونیورسٹی کی طالبہ ہے۔