پشاور کی سکھ آبادی نے ضلعی حکومت کے خلاف ہائی کورٹ میں رٹ دائر کر دی

مردان 'شمشان گھاٹ'

خیبر پختونخوا میں سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد نے پشاور میں اپنے مُردوں کی آخری مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے ضروری 'شمشان گھاٹ' کی سہولت مہیا نہ کرنے کے باعث محکمہ اوقاف و مذہبی امور کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں رٹ دائر کر دی ہے۔

رٹ میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ پشاور میں 'شمشان گھاٹ' کی تعمیر کیلئے فنڈز کی منظوری کے باوجود محکمہ اپنے فرائض انجام نہیں دے رہا جس کے باعث سکھوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

پشاور کے رہائشی سکھ رہنما، بابا گورپال سنگھ کی جانب سے دائر کی گئی رٹ میں کہا گیا ہے کہ صوبہ بھر میں سکھوں کی آبادی 60 ہزار سے زائد ہے، جبکہ صرف پشاور میں 15 ہزار سے زائد سکھ رہ رہے ہیں۔

تاہم، سکھوں کے پاس اپنے مُردے جلانے کیلئے ایک بھی شمشان گھاٹ موجود نہیں، اور نہ ہی میت کو لے جانے کیلئے حکومت کی طرف سے ایمبولینس یا گاڑی مہیا کی گئی ہے۔

رٹ میں کہا گیا ہے کہ عدالت عالیہ سکھ برادری کو بطور پاکستانی شہری ان کے مُردوں کو جلانے کا حق فراہم کرتے ہوئے محکمہ اوقاف کو حکم جاری کرے کہ وہ جلد از جلد 'شمشان گھاٹ' تعمیر کرے جبکہ منظوری شدہ 26 لاکھ روپے کو استعمال کرتے ہوئے ایمبولینس خریدنے کا عمل بھی جلد از جلد مکمل کیا جائے۔

پشاور ہائی کورٹ میں دائر رٹ میں محکمہ اوقاف و اقلیتی امور سمیت ناظم ٹان ون اور ڈپٹی کمشنر پشاور کو بھی فریق بنایا گیا ہے۔

عدالت نے اس مہینے کی 22 تاریخ کو کیس کی شنوائی کے لئے فریقین کو طلب کرلیا ہے۔

پاکستان کے آئین کی شق نمبر25 کے تحت تمام پاکستانیوں کو برابر کے حقوق حاصل ہیں۔ اسلئے تمام اقلیتوں کے لیے قبرستان اور شمشان گھاٹ کی سہولیات فراہم کرنا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔

یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ خیبر پختونخوا میں دریا کابل پر اٹک کے مقام پر سکھوں اور مردان میں ہندوؤں کا ایک 'شمشان گھاٹ' واقع ہے، جبکہ خیبر ایجنسی کی تحصیل باڑہ میں قائم سکھوں کا 'شمشان گھاٹ' حالات کی خرابی کی وجہ سے بند پڑا ہے۔

مردان اور اٹک کے شمشان گھاٹ میں پورے صوبے سے ہندو اور سکھ اپنے مُردوں کو 80 سے 100 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے لاتے ہیں۔