ایک ارب پتی بھارتی باشندے کی طرف سے تعلیمی پروگراموں کے لیے تقریباً دو ارب ڈالر کے عطیے کے وعدے سے ان توقعات میں اضافہ ہواہے کہ ملک کے دیگرامیرترین افراد بھی اس مثال کی پیروی کرتے ہوئے آگے بڑھیں گے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ تیز تر معاشی ترقی کے باعث دولت میں اضافے نے امیر اورملک میں بڑے پیمانے پر موجود غریبوں کے درمیان فرق کی خلیج کو مزید بڑھا دیا ہے۔
بھارت میں سافٹ ویئر تیار کرنے کے سب سے ممتاز نام عظیم پریم جی کی جانب سے اپنی آئی ٹی کمپنی وپروکے تقریباً دوارب ڈالر مالیت کے حصص ایک نئے خیراتی ٹرسٹ میں منتقل کرنے کا اعلان کسی بھی بھارتی شخصیت کی جانب سے دیا جانے والا سب سے بڑا عطیہ ہے۔
یہ رقم دیہی علاقوں میں تعلیم اور دیگر تعمیراتی پروگراموں کے لیے کام کرنے والے ایک فلاحی ادارےکو دی جائے گی۔ بھارت کی تیسری سب سے امیر شخصیت پریم جی کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ ایک بہتر معاشرے کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالنا چاہتے ہیں۔ بھارت کی ایک ارب 20 کروڑ آبادی میں غیر خواندہ افراد کی تعداد تقریباً ایک تہائی ہے۔
عطیے کے اس اعلان سے ان توقعات میں اضافہ ہوا ہے کہ دوسرے امیر بھارتی بھی ان کے نقش قدم پر چلیں گے۔
تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ بھارتیوں میں خیرات دینے کا روایت موجود ہے لیکن اس کا بڑا حصہ اپنے گھر میں کام کرنے والے ملازموں ، اپنے اردگرد موجود غریبوں اور مقامی عبادت گاہوں کودے دیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ معاشی ترقی کے باعث امیرترین افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافے کے باوجود امیر بھارتی شخصیات اور اداروں کی جانب سے منظم انداز میں عطیات دینے کےرواج بننے کا عمل بہت سست ہے۔
بھارت میں اس وقت ارب پتی افراد کی تعداد 52 جب کہ کروڑ پتی افراد ایک لاکھ 25 ہزار سے زیادہ ہیں۔ خیراتی امور کی ایک تجزیہ کار پریا وشواناتھ کا کہنا ہے کہ امیر لوگوں میں معقول پیمانے پر عطیات دینے کا رواج بڑھ رہاہے۔
اگر آپ امریکہ یا برطانیہ جیسے بڑے خیراتی نیٹ ورک سامنے رکھیں تو میرا خیال ہے کہ بھارت کو اس مقام پر پہنچنے میں طویل عرصہ درکارہے ۔ مثلاً بل گیٹس یا وارن بفٹ عطیات کے لیے جس طرح کے وعدے کرتے ہیں ، بھارت میں ایسا ہونا مشکل ہے، لیکن اب پریم جی کی جانب سے قائم کی جانے والی مثال انفرادی سطح پر بڑے پیمانے کے خیراتی اداروں کےقیام کی ایک حوصلہ افزا علامت ہے۔
ایک عالمی ادارے Bains کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت میں 2009ء میں دی جانے والی تمام خیرات میں افراد اور کمپنیوں کے عطیات کا حصہ 10 فی صد کے مساوی تھا، جب کہ امریکہ میں یہ شرح 75 فی صد تھی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت میں دولت مند افراد کی تعداد زیادہ گذشتہ ایک عشرے میں بڑھی ہے، جس کی وجہ سے ممکن ہے کہ اکثر امرا فی الحال اپنی دولت کو خود سے جدا کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ توقع ہے کہ عطیات دینے کا رجحان تاخیر سے نہیں بلکہ جلد شروع ہوجائے گا۔
بھارت کے امرا پر یہ دباؤ بڑھ رہاہے کہ وہ ان غریبوں کی مزید مدد کے لیے آگے آئیں جن تک معاشی ترقی کے ثمرات نہیں پہنچے۔
بھارت میں 50 کروڑ سے زیادہ افراد ایسے ہیں جن کی آمدنی دو ڈالر روزانہ سے بھی کم ہے۔ لاکھوں بچے غذائیت کی کمی کا شکار اورتعلیم سے محروم ہیں۔