فلپائن نے زیرِ حراست اپوزیشن رہنما اور انسانی حقوق کی کارکن لیلیٰ ڈی لیما کی حمایت کرنے پر دو امریکی سینیٹرز کے فلپائن داخلے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ فلپائنی صدر کا کہنا ہے کہ اگر امریکہ نے اس معاملے میں فلپائن پر پابندیاں لگانے کی کوشش کیں تو فلپائن امریکی شہریوں کے لیے ویزا شرائط سخت کر دے گا۔
دو امریکی سنیٹر رچرڈ ڈربن اور پیٹرک لیہی فلپائن کا دورہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔
فلپائنی صدر کے دفتر کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ سینیٹر لیلیٰ ڈی لیما کی حراست کے حوالے سے اگر امریکہ نے کسی بھی فلپائنی اہلکار کو امریکا میں داخلے سے روکا۔ تو وہ تمام امریکیوں کے لیے فلپائن کے ویزے پر پابندی لگا دیں گے۔
فلپائن امریکیوں کو 30 دن کے لیے بغیر ویزے کے ملک میں داخلے کی اجازت دیتا ہے۔ اور اس سال کے پہلے 9 ماہ کے دوران 792,000 امریکیوں نے فلپائن کا دورہ کیا تھا۔ یہ تعداد فلپائن آنے والے غیر ملکیوں کے 13 فی صد کے برابر ہے۔
فلپائن کے صدر روڈریگو دوتیرتے نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ اگر امریکہ نے خود مختار ملک فلپائن کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی کوشش کی تو وہ چین سے نہیں بیٹھیں گے۔
منیلا میں امریکی سفارت خانے یا امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے اس بارے میں فی الحال کسی رد عمل کا اظہار نہیں کیا گیا ہے۔ تاہم سینیٹر لیلٰی کے ترجمان ڈیوڈ کارل کا کہنا ہے کہ لیلیٰ ڈی لیما کے خلاف سیاسی بنیادوں پر الزامات عائد کیے گئے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ یہ معاملہ فلپائن کے لوگوں کے اظہار رائے کی آزادی کے حقوق سے متعلق ہے۔ عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ حکومت کی طرف سے طاقت کے استعمال اور انصاف فراہم نہ کرنے پر تنقید کریں۔
فلپائن کو امریکہ کو بڑا دفاعی اتحادی سمجھا جاتا ہے۔ لاکھوں فلپائنی امریکہ کے شہری بھی ہیں۔
لیلیٰ ڈی لیما سابق حکومت میں وزیر انصاف کے عہدے پر فائز تھیں۔ انہیں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے پر متعدد ایوارڈ بھی دیے جا چکے ہیں۔ ڈی لیما خود کو ضمیر کا قید قرار دیتی رہی ہیں۔
وہ فلپائن کے صدر کی منشیات کے خلاف کارروائی کے دوران ہزاروں افراد کی مبینہ ہلاکت کی عالمی تحقیقات کا مطالبہ بھی کر چکی ہیں۔ پولیس کے مطابق منشیات فروشوں کے خلاف کارروائی کے دوران ہلاک ہونے والے افراد نے مزاحمت کی تھی۔ لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ انہیں قتل کیا گیا۔