'افغان فضائیہ کو طالبان کی پیش قدمی روکنے کے بجائے ملک سے فرار ہونے میں زیادہ دلچسپی تھی'

افغان ایئر فورس کا ایک سی 130جہاز۔ فائل فوٹو

پندرہ اگست کو جب طالبان کابل میں داخل ہوئے، اس سے چند ہی گھنٹے قبل افغان ایئر فورس کی شکست و ریخت کے عمل کا آغاز ہو چکا تھا۔ اس کے اہل کار طالبان کے خلاف فضائی کارروائی کی بجائے ملک سے فرار ہونے کی کوشش میں اپنے ساتھیوں سے الجھ رہے تھے۔

ہوا کچھ یوں کہ کابل کے ہوائی اڈے کی ایئرفیلڈ کی نگرانی پر مامور افغان فضائیہ کے چند اہل کار ایسے تھے جو اس روز پرواز بھرنے والے ملٹری ہیلی کاپٹر میں نشست کے حصول کی تگ و دو کر رہے تھے، انھیں طالبان کی پیش قدمی کو روکنے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔

اس واقعے کی روداد ہیلی کاپٹر کے پائلٹ، جن کا تعلق بھی افغان ایئر فورس سے تھا، اور عملے کے دو دیگر اہل کاروں نے بتائی ہے۔

SEE ALSO: طالبان کو کابل میں داخل ہونے کی 'دعوت' دی گئی تھی: حامد کرزئی

پائلٹ نے رائٹرز کو بتایا کہ ہیلی کاپٹر شہر سے باہر جا رہا تھا، لیکن محافظوں کو یقین ہو چلا تھا کہ یہ ملک سے باہر جا رہا ہے، اور ان کی کوشش یہ تھی کہ انھیں اس میں جگہ ملنی چاہیے۔

ملک چھوڑنے کی کوشش کا یہ عالم تھا کہ ایک اور محافظ نے، جسے ہیلی کاپٹر میں جگہ نہیں مل رہی تھی، اس نے دوسرے محافظوں کو جانے سے روکنے کے لیے کاک پٹ میں اپنی بندوق تان لی۔

پھر وہ کچھ ہوا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ گولیاں چلیں، ہیلی کاپٹر کو نشانہ بنایا گیا۔ ہیلی کاپٹر کے پرخچے اڑ گئے، اس واقعے میں پائلٹ اور ہیلی کاپٹر میں سوار ایک مسافر زخمی ہوا، جنھیں طبی امداد کے لیے لے جانا پڑا۔ پائلٹ نے بتایا کہ گولی لگنے سے ''میرا چہرہ خون بہنے کی وجہ زرد پڑ گیا تھا''۔

اسی روز شام کو افغان صدر اشرف غنی شہر چھوڑ کر جا چکے تھے، جس کے نتیجے میں امریکی حمایت یافتہ حکومت دھڑام سے گر پڑی۔ یہ ایک ایسی صورت حال تھی جس کے بارے میں کسی نے سوچا بھی نہیں ہو گا کہ کبھی ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ پھر چند ہی گھنٹوں کے اندر طالبان کابل میں گھس آئے، جس کے بعد امریکی افواج کے انخلا کا تیزی سے جاری عمل متاثر ہوا اور امریکی صدر جو بائیڈن کے صدارتی عہدے کے لیے ایک غلط تاثر کا باعث بنا۔

بات یہ ہے کہ اس سارے قصے کی کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی کیونکہ کابل کا کنٹرول ہاتھوں نکل جانے سے اس روز کے اصل محرکات نظروں سے اوجھل رہے ہیں۔ کہیں یہ رپورٹ نہیں ہوا کہ درونِ خانہ افغان ایئر فورس کس حال میں تھی۔

رائٹرز کو خصوصی تفاصیل کا علم ان ایئرمینوں اور سابق افغان اہل کاروں سے بات کرنے کے بعد ہوا ہے جن کے ذمے 15 اگست کو اشرف غنی اور ان کے احباب کو ہمسایہ ملک لے جانے والی خفیہ پرواز کو ازبکستان پہنچانا تھا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پرواز کی اڑان سے پہلے اشرف غنی کو کس افراتفری اور پریشانی کا سامنا تھا۔

SEE ALSO: کابل پر قبضہ امریکہ اور طالبان کے امن معاہدے کی وجہ سے ہوا: سابق افغان مشیرِ قومی سلامتی

رائٹرز نے بتایا ہے کہ یہ رپورٹ ترتیب دیتے ہوئے اس کے نمائندوں نے دو درجن سے زائد افراد سے رابطہ کیا جن میں پائلٹ، فوج کے سابق عہدے دار، سابق حکومتی اہل کار اور افغان تنازع سے تعلق رکھنے والے سابق افغان اور سابق امریکی فوجی شامل ہیں۔ ان کی کہانیاں سننے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اشرف غنی کے اقتدار کے آخری دنوں میں افغان ایئر فورس کس حال میں تھی۔ ایک وقت وہ بھی تھا کہ افغان فضائیہ ملک کی فوج کی آنکھ کا تارا تھی۔

افغان فضائی فوج کو تشکیل دینے پر امریکہ نے اربوں ڈالر خرچ کیے تھے، تاکہ اسلام نواز باغیوں پر افغان حکومت کو ایک واضح برتری حاصل رہے۔ بم باری اور چھاپوں کے دوران بیشمار طالبان عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا گیا، جن کے پاس کوئی فضائی طاقت نہیں تھی۔

لیکن، 2021ء کے وسط میں جب ملک سے امریکی انخلا کا وقت آیا تو مقامی انتظام چند ہفتوں کے اندر دھڑام سے الٹ پلٹ ہو گیا۔

پھر چپلیں پہنے ہوئے جنگجو ٹوٹے ہوئی پک اپ گاڑیوں میں سوار ہو کر محافظوں کی عدم موجودگی میں فضائی اڈوں پر قبضہ کرتے چلے گئے، کیونکہ انہوں نے لڑے بغیر ہی ہاتھ کھڑے کر دیے تھے۔ گولہ بارود کم پڑ گیا۔ جہاز کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔ پائلٹ وہ لڑاکا جہاز اور ہیلی کاپٹر اڑا کر کابل لے گئے تاکہ حکومت کے مضبوط گڑھ کو محفوظ کیا جا سکے۔

لیکن، وہ یہ حکمت عملی اپنانے میں ناکام رہے۔ جب غنی کے مفرور ہونے کی بات عام ہوئی تو ایئرمینوں نے دفاعی آلات اور اپنے آپ کو بچانے کی جستجو کی۔ پائلٹ، فضائی عملہ، یہاں تک کہ بعض واقعات میں ان کے رشتہ دار بھی طیاروں میں سوار ہو کر ملک سے بھاگ نکلے۔ افغان اور امریکی حکام نے بتایا ہے کہ ملک کے ایک چوتھائی سے زائد جہاز اڑ کر ہمسایہ ملکوں ازبکستان اور تاجکستان کی جانب چلے گئے۔

افغان ایئر فورس کے ایک سابق اہل کار نے بتایا کہ ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ آخری لمحات میں ہمارا کسی چیز پر کوئی کنٹرول نہیں رہا تھا۔

یہ سب کچھ اتنی تیزی سے ہوا کہ پینٹاگان نے فوری طور پر امریکی افواج کا دستہ کابل روانہ کیا جس کے ذمے یہ کام تھا کہ وہ پیچھے رہ جانے والے امریکہ کے فراہم کردہ درجنوں لڑاکا جہازوں کو ناکارہ بنائے، تاکہ وہ طالبان کو ناکارہ حالت میں ملیں۔

جان مائیکل ایک سابق برگیڈیئر جنرل ہیں، جنھوں نے اچھے وقتوں میں افغان ایئر فورس کی تربیت کے فرائض انجام دیے، اور جو امریکی تربیتی مشن کی قیادت کر چکے ہیں۔ انھوں نے افغان فضائیہ کی مایوس کن کارکردگی پر افسوس کا اظہار کیا۔ لیکن انھیں اس پر کوئی حیرت نہیں ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ افغانستان جیسے ملک میں امریکی ماڈل جیسا معیار نافذ کرنا ممکن نہیں تھا۔

مائیکل کے بقول، ''پہلے ہی روز سے یہ منصوبہ چلنے والا نہیں تھا۔ اس بلند نگاہی پر مبنی معیار کے منصوبے کو ناکام ہونا ہی تھا''۔