کردش باغی گروپ کردستان ورکرز پارٹی یا ‘پی کے کے’ کے فوجی لیڈر نے اعلان کیا ہے کہ ان کی فورسز جلد ہی ترکی کو چھوڑنا شروع کر دیں گی۔
استنبول —
کردش باغی گروپ کردستان ورکرز پارٹی یا ‘پی کے کے’ کے فوجی لیڈر نے اعلان کیا ہے کہ ان کی فورسز جلد ہی ترکی کو چھوڑنا شروع کر دیں گی۔ یہ اعلان انقرہ اور کردش باغی گروپ کے درمیان امن قائم کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔
‘پی کے کے’ کے فوجی سربراہ مراد کاریلان نے کہا کہ ان کی فورسز مئی کے شروع میں ترکی کو چھوڑنا شروع کر دیں گی۔
یہ اعلان ہمسایہ ملک عراق میں باغیوں کے ایک خفیہ پہاڑی ٹھکانے میں ہونے والی پریس کانفرنس کے دوران کیا گیا۔ توقع ہے کہ باغیوں کے اندازاً دو ہزار جنگجوؤں کی واپسی میں کئی مہینے لگ جائیں گے۔
ترکی کے اخبار ‘ملیت’ کے کالم نگار قادری گریوسل نے کہا ہے کہ کردش جنگجوؤں کی واپسی کےدوران حکومت پر دباؤ ہوگا کہ وہ بھی کوئی اقدام کرے۔
‘‘امن کے عمل میں یہ پہلا بڑا قدم ہے۔ یہ موسم ِخزاں کے آخر تک چلتا رہے گا۔ اس طویل مدت کے دوران، میرے خیال میں حکومت کی طرف سے بھی کوئی جوابی اقدام کیا جانا چاہیئے کم از کم اعتماد کی تعمیر کے لیے کچھ کرنا ضروری ہے تا کہ یہ سب کارروائی یکطرفہ نہ ہو۔’’
پی کے کے نے 1984 میں ہتھیار اٹھائے تھے اور اقلیتوں کے زیادہ حقوق اور مقامی خود مختاری کے لیے جد و جہد شروع کی تھی۔ اس تنازعے میں 40,000 سے زیادہ جانیں ضائع ہوئی ہیں اور دس لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہوئے ہیں۔
باغیوں کے بہت سے مطالبات نئے آئین میں پورے کیے جا سکتے ہیں جس کا مسودہ ترک پارلیمینٹ آج کل تیار کر رہی ہے ۔
لیکن امریکہ میں قائم ہیومن رائٹس واچ نے جمعرات کو ایک بیان جاری کیا جس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ امن کے عمل کی رفتار قائم رکھنے کے لیے فوری اقدامات ضروری ہیں۔
ترکی میں اس گروپ کی نمائندہ ایما ویب کہتی ہیں کہ جو کرد جیلوں میں ہیں ان کے معاملے پر فوری طور پر توجہ دی جانی چاہیئے۔
‘‘اس وقت ہم ان ہزاروں لوگوں کی بات کر رہے ہیں جو دہشت گردی کے الزامات میں جیل میں ہیں۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان میں سے بہت سے لوگوں نے کوئی ایسا کام نہیں کیا ہے جسے دہشت گردی کہا جا سکے۔ ان کی اسیری سراسر سیاسی ہے اور اس معاملے پر فوری توجہ دی جانی چاہیئے۔’’
ترکی کی حکومت پر ترک قوم پرستوں کی طرف سے تنقید میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس ہفتے پولیس نے انقرہ یونیورسٹی کے کیمپس میں کردش اور قوم پرست طالب علموں کے درمیان جھڑپوں کو ختم کرنے کے لیے آنسو گیس استعمال کی۔
استنبول میں قائم ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ‘ای ڈی اے ایم’ کے سربراہ سننان الجن کہتے ہیں کہ یہ بات اہم ہے کہ دونوں طرف سے توقعات کو قابو میں رکھا جائے۔
‘‘دونوں طرف سے توقعات میں فرق بڑھ رہا ہے۔ ایک طرف ترک ہیں جن میں ان وعدوں کے بارے میں کئی شبہات ہیں جو حکومت نے کردوں سے کیے ہیں ۔ دوسری طرف کردوں میں اب بھی بہت سی چیزیں ہیں جو حکومت قبول کرنے کو تیار ہے، لیکن جو ان کی توقعات سے کم ہیں۔ لہٰذا ترکوں اور کردوں کی قیادت کے سامنے ایک اہم چیلنج یہ ہے کہ وہ اپنے لوگوں کی توقعات کو قابو میں رکھیں۔’’
رائے عامہ کے حالیہ جائزوں کے مطابق، کردوں اور ترکوں کی اکثریت امن کی موجودہ کوششوں کی حامی ہے۔ مبصرین کہتے ہیں کہ اس قسم کی حمایت سے امن کے عمل کو زبردست تقویت ملتی ہے۔
کالم نگار گرسول کہتے ہیں کہ ترکی سے ‘پی کے کے’ کے باغیوں کی کامیاب اور پر امن واپسی سے اس عمل کی تکمیل میں مدد ملے گی۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ اس واپسی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ‘پی کے کے’ کی فوجی اور سیاسی طاقت ختم ہو جائے گی۔
پی کے کے اس علاقے میں سب سے بڑی طاقت بن گئی ہے جو حکومتی کنٹرول سے آزاد ہے۔ وہ چار ملکوں میں سرگرم ہیں جہاں کرد آباد ہیں یعنی ایران، ترکی، عراق اور شام۔ وہ اپنی فورسز ایک ملک سے دوسرے ملک میں منتقل کر سکتے ہیں۔ وہ ان چار ملکوں سے اپنے لیے عسکریت پسند اور گوریلا جنگ لڑنے والے لوگ بھرتی کر سکتےہیں۔ پی کے کے صحیح معنوں میں مشرقِ وسطیٰ میں اہم طاقت بن گئی ہے۔’’
اگرچہ امن کی کوششوں کے لیے زبردست حمایت موجود ہے لیکن کوئی حتمی تصفیہ کرنے کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں باقی ہیں۔ ایک پیچیدہ مسئلہ ‘پی کے کے’ کے سینیئر کارکنوں کے مستقبل کا ہے۔ ان میں سے بہت سے لوگ اپنے ہتھیار رکھ کر سیاسی نمائندگی میں حصہ لینا چاہتےہیں۔ یہ ایسی چیز ہے جو بہت سے ترکوں کے لیے نا قابلِ قبول ہے ۔
‘پی کے کے’ کے فوجی سربراہ مراد کاریلان نے کہا کہ ان کی فورسز مئی کے شروع میں ترکی کو چھوڑنا شروع کر دیں گی۔
یہ اعلان ہمسایہ ملک عراق میں باغیوں کے ایک خفیہ پہاڑی ٹھکانے میں ہونے والی پریس کانفرنس کے دوران کیا گیا۔ توقع ہے کہ باغیوں کے اندازاً دو ہزار جنگجوؤں کی واپسی میں کئی مہینے لگ جائیں گے۔
ترکی کے اخبار ‘ملیت’ کے کالم نگار قادری گریوسل نے کہا ہے کہ کردش جنگجوؤں کی واپسی کےدوران حکومت پر دباؤ ہوگا کہ وہ بھی کوئی اقدام کرے۔
‘‘امن کے عمل میں یہ پہلا بڑا قدم ہے۔ یہ موسم ِخزاں کے آخر تک چلتا رہے گا۔ اس طویل مدت کے دوران، میرے خیال میں حکومت کی طرف سے بھی کوئی جوابی اقدام کیا جانا چاہیئے کم از کم اعتماد کی تعمیر کے لیے کچھ کرنا ضروری ہے تا کہ یہ سب کارروائی یکطرفہ نہ ہو۔’’
پی کے کے نے 1984 میں ہتھیار اٹھائے تھے اور اقلیتوں کے زیادہ حقوق اور مقامی خود مختاری کے لیے جد و جہد شروع کی تھی۔ اس تنازعے میں 40,000 سے زیادہ جانیں ضائع ہوئی ہیں اور دس لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہوئے ہیں۔
باغیوں کے بہت سے مطالبات نئے آئین میں پورے کیے جا سکتے ہیں جس کا مسودہ ترک پارلیمینٹ آج کل تیار کر رہی ہے ۔
لیکن امریکہ میں قائم ہیومن رائٹس واچ نے جمعرات کو ایک بیان جاری کیا جس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ امن کے عمل کی رفتار قائم رکھنے کے لیے فوری اقدامات ضروری ہیں۔
ترکی میں اس گروپ کی نمائندہ ایما ویب کہتی ہیں کہ جو کرد جیلوں میں ہیں ان کے معاملے پر فوری طور پر توجہ دی جانی چاہیئے۔
‘‘اس وقت ہم ان ہزاروں لوگوں کی بات کر رہے ہیں جو دہشت گردی کے الزامات میں جیل میں ہیں۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان میں سے بہت سے لوگوں نے کوئی ایسا کام نہیں کیا ہے جسے دہشت گردی کہا جا سکے۔ ان کی اسیری سراسر سیاسی ہے اور اس معاملے پر فوری توجہ دی جانی چاہیئے۔’’
ترکی کی حکومت پر ترک قوم پرستوں کی طرف سے تنقید میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس ہفتے پولیس نے انقرہ یونیورسٹی کے کیمپس میں کردش اور قوم پرست طالب علموں کے درمیان جھڑپوں کو ختم کرنے کے لیے آنسو گیس استعمال کی۔
استنبول میں قائم ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ‘ای ڈی اے ایم’ کے سربراہ سننان الجن کہتے ہیں کہ یہ بات اہم ہے کہ دونوں طرف سے توقعات کو قابو میں رکھا جائے۔
‘‘دونوں طرف سے توقعات میں فرق بڑھ رہا ہے۔ ایک طرف ترک ہیں جن میں ان وعدوں کے بارے میں کئی شبہات ہیں جو حکومت نے کردوں سے کیے ہیں ۔ دوسری طرف کردوں میں اب بھی بہت سی چیزیں ہیں جو حکومت قبول کرنے کو تیار ہے، لیکن جو ان کی توقعات سے کم ہیں۔ لہٰذا ترکوں اور کردوں کی قیادت کے سامنے ایک اہم چیلنج یہ ہے کہ وہ اپنے لوگوں کی توقعات کو قابو میں رکھیں۔’’
رائے عامہ کے حالیہ جائزوں کے مطابق، کردوں اور ترکوں کی اکثریت امن کی موجودہ کوششوں کی حامی ہے۔ مبصرین کہتے ہیں کہ اس قسم کی حمایت سے امن کے عمل کو زبردست تقویت ملتی ہے۔
کالم نگار گرسول کہتے ہیں کہ ترکی سے ‘پی کے کے’ کے باغیوں کی کامیاب اور پر امن واپسی سے اس عمل کی تکمیل میں مدد ملے گی۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ اس واپسی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ‘پی کے کے’ کی فوجی اور سیاسی طاقت ختم ہو جائے گی۔
پی کے کے اس علاقے میں سب سے بڑی طاقت بن گئی ہے جو حکومتی کنٹرول سے آزاد ہے۔ وہ چار ملکوں میں سرگرم ہیں جہاں کرد آباد ہیں یعنی ایران، ترکی، عراق اور شام۔ وہ اپنی فورسز ایک ملک سے دوسرے ملک میں منتقل کر سکتے ہیں۔ وہ ان چار ملکوں سے اپنے لیے عسکریت پسند اور گوریلا جنگ لڑنے والے لوگ بھرتی کر سکتےہیں۔ پی کے کے صحیح معنوں میں مشرقِ وسطیٰ میں اہم طاقت بن گئی ہے۔’’
اگرچہ امن کی کوششوں کے لیے زبردست حمایت موجود ہے لیکن کوئی حتمی تصفیہ کرنے کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں باقی ہیں۔ ایک پیچیدہ مسئلہ ‘پی کے کے’ کے سینیئر کارکنوں کے مستقبل کا ہے۔ ان میں سے بہت سے لوگ اپنے ہتھیار رکھ کر سیاسی نمائندگی میں حصہ لینا چاہتےہیں۔ یہ ایسی چیز ہے جو بہت سے ترکوں کے لیے نا قابلِ قبول ہے ۔