دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کا علاج پلازمہ تھراپی سے آزمائشی بنیادوں پر کیا جارہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پلازمہ تھراپی کرونا وائرس سے متاثرہ ہر مریض کے لیے موثر نہیں ہے۔
ماہرین کے بقول پلازمہ تھراپی کے ذریعے کرونا وائرس سے متاثرہ صرف ان مریضوں کا علاج ممکن ہے جو 'سیویئر اسٹیج' پر ہوں۔ جو مریض اس وبا سے ‘کریٹیکل اسٹیج’ پر پہنچ چکے ہوں، پلازمہ تھراپی کے ذریعے ان کا علاج ممکن نہیں ہے۔
پلازمہ تھراپی کے لیے درکار پلازمہ اور اس میں موجود ‘اینٹی باڈیز’ سے متعلق ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ لازمی نہیں کہ کرونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے ہر فرد سے حاصل کردہ پلازمہ میں اینٹی باڈیز موجود ہوں۔ تاہم پلازمہ عطیہ کرنے والے شخص کو کسی قسم کے خطرات لاحق نہیں ہوتے اور یہ عمل 30 سے 45 منٹ میں مکمل ہو جاتا ہے۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پلازمہ تھراپی کے ذریعے کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کے آزمائشی بنیادوں پر علاج کے حوصلہ افزا نتائج سامنے آ رہے ہیں۔
پلازمہ تھراپی ہے کیا؟
پاکستان میں پلازمہ تھراپی سے متعلق کچھ غلط فہمیوں اور ابہام پر یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز میں شعبۂ فزیالوجی اور پلازمہ تھراپی ٹرائل کے سربراہ ڈاکٹر فریدون جواد کہتے ہیں کہ یہ دراصل 'پیسیو امیونائزیشن' کا طریقۂ علاج ہے جو 18 ویں صدی کے آخر میں ایجاد ہوا تھا۔ اس میں اینٹی باڈیز کے ذریعے علاج کیا جاتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اینٹی باڈیز کیا ہوتی ہیں؟
ڈاکٹر فریدون کے مطابق انسانی جسم کے اندر جب باہر سے جراثیم داخل ہوتے ہیں تو سب سے پہلے انسان کی قوتِ مدافعت اس کی تشخیص کرتی ہے۔ پھر قوتِ مدافعت ان جراثیم کے خلاف مالیکیولز بناتی ہے جو ان جراثیم سے لڑتے ہیں۔ ان مالیکیولز کو 'اینٹی باڈیز' کہا جاتا ہے۔
ڈاکٹر فریدون کا کہنا تھا کہ انسانی جسم میں بننے والی اینٹی باڈیز اسی جرثومے کے خلاف استعمال کی جاتی ہیں جن جراثیم کے خلاف وہ اینٹی باڈیز بنی ہوتی ہیں۔
کرونا وائرس کے مریضوں کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب کوئی مریض کرونا سے صحت یاب ہو جاتا ہے تو اس کے خون میں 'اینٹی باڈیز' موجود ہوتی ہیں۔
ان کے بقول صحت یاب ہونے والے مریض کا پلازمہ جب وائرس سے متاثرہ کسی دوسرے شخص کو لگایا جاتا ہے تو اس پلازمہ میں موجود 'اینٹی باڈیز' مریض کے جسم میں وائرس کی تشخیص کرتی ہیں اور قوتِ مدافعت کے باقی اجزا کرونا وائرس کو تلف کر دیتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
پلازمہ اور خون میں کیا فرق ہے؟
ڈاکٹر فریدون نے خون اور پلازمہ کا فرق بتاتے ہوئے کہا کہ لیبارٹریوں میں جب خون کا نمونہ لیا جاتا ہے تو اس کا نچلا حصہ سرخی مائل ہوتا ہے جب کہ اوپر والا حصہ شفاف پانی نما ہوتا ہے۔
ان کے بقول پلازمہ خون کا پانی نما حصہ ہوتا ہے جب کہ نچلے حصے میں 'سیلز' ہوتے ہیں۔
خون سے پلازمہ کیسے نکالا جاتا ہے؟
ڈاکٹر فریدون نے بتایا کہ جیسے خون کا نمونہ حاصل کرنے کے لیے سوئی لگائی جاتی ہے، اسی طرح سوئی کے ذریعے خون ایک مشین میں لگائی گئی تھیلی میں جاتا ہے جس کے بعد وہ مشین خون سے پلازمہ الگ کر کے دوسری تھیلی میں منتقل کر دیتی ہے اور 'سیلز' دوبارہ پلازمہ عطیہ کرنے والے شخص کے جسم میں چلے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر فریدون کے بقول اس عمل میں استعمال ہونے والی کِٹ ڈسپوزِبل ہوتی ہے اور پلازمہ حاصل کرنے کے عمل میں 30 سے 45 منٹ کا وقت لگتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پلازمہ عطیہ کرنے والا شخص ایک ہفتے بعد دوبارہ پلازمہ عطیہ کر سکتا ہے۔
کیا ہر مریض کا علاج پلازمہ تھراپی سے ممکن ہے؟
ڈاکٹر فریدون جواد نے اس حوالے سے کہا کہ پلازمہ تھراپی کے ذریعے کرونا سے متاثرہ صرف ان مریضوں کا علاج کیا جا رہا ہے جو 'سیویئر اسٹیج' پر ہوں یعنی وہ اسٹیج جس میں مریض کو آکسیجن لگائی گئی ہو۔ لیکن جن مریضوں کی حالت نازک یعنی 'کریٹیکل اسٹیج' ہو ان کا علاج پلازمہ تھراپی سے نہیں ہو سکتا۔
ان کے بقول جو مریض شدید بیماری کے اسٹیج پر نہ ہوں ان کا علاج بھی پلازمہ تھراپی سے نہیں کیا جاتا۔
ڈاکٹر فریدون کے مطابق مریض کی حالت کے پیشِ نظر پلازمہ تھراپی کے ذریعے علاج کا فیصلہ ڈاکٹر، مریض کی علامات کی نوعیت دیکھ کر کرتا ہے۔
ڈاکٹر فریدون نے مزید کہا کہ پلازمہ تھراپی صرف ایک طریقہ علاج ہے۔ اس کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی کہ اس طریقے سے کرونا سے متاثرہ مریض کی جان بچائی جا سکتی ہے یا نہیں۔
کرونا سے صحت یاب ہر فرد پلازمہ عطیہ کر سکتا ہے؟
ڈاکٹر فریدون کے مطابق پلازمہ عطیہ کرنے کی چند شرائط ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ لازمی ہے کہ پلازمہ عطیہ کرنے والے شخص کو کرونا وائرس سے صحت یاب ہوئے دو ہفتے گزر چکے ہوں۔ اس کے علاوہ یہ بھی یقینی بنایا جاتا ہے کہ اس شخص کے خون میں اینٹی باڈیز موجود ہوں۔
ڈاکٹر فریدون کے بقول ان کے پاس کرونا سے صحت یاب ہونے والے کئی مریض ایسے بھی آئے ہیں جو پلازمہ عطیہ کرنا چاہتے تھے لیکن ان کے جسم میں اینٹی باڈیز موجود ہی نہیں تھیں۔
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ یہ بھی یقینی بنایا جاتا ہے کہ پلازمہ عطیہ کرنے والے مریض کے خون میں دیگر مہلک امراض مثلاً ایڈز، ملیریا اور ہیپاٹائٹس کے جراثیم موجود نہ ہوں۔
پلازمہ کرونا کے کسی بھی مریض کو لگ سکتا ہے؟
ڈاکٹر فریدون کا کہنا ہے کہ اب تک تو کرونا سے صحت یاب ہونے والے کسی بھی شخص کا پلازمہ دوسرے مریض کے علاج کے لیے فائدہ مند ثابت ہو رہا ہے۔ لیکن کوشش یہ کی جاتی ہے کہ جس بلڈ گروپ کا پلازمہ ہو، وہ اسی بلڈ گروپ کے مریض کو لگایا جائے۔
پلازمہ عطیہ کرنے والے شخص کو کیا خطرات لاحق ہوتے ہیں؟
ڈاکٹر فریدون نے اس بارے میں کہا کہ اگر یہ عمل پیشہ ورانہ طریقے سے درست انجام دیا جائے تو پلازمہ عطیہ کرنے والے شخص کو صرف سوئی چبھنے کی تکلیف برداشت کرنا پڑتی ہے، اس کے علاوہ کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔
Your browser doesn’t support HTML5
مریض کے لیے پلازمہ کیسے حاصل کیا جاتا ہے؟
ڈاکٹر فریدون کے مطابق جس مریض کے لیے پلازمہ درکار ہوتا ہے اسے ڈاکٹر لکھ کر دیتا ہے کہ مذکورہ مریض کو پلازمہ تھراپی کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ مریض کے ٹیسٹ کی تفصیلات ایک فارم پر دی جاتی ہیں۔
ان کے بقول مریض کو پلازمہ بالکل ویسے ہی لگایا جاتا ہے جیسے کسی مریض کو ڈرپ لگائی جاتی ہے۔
کتنے مریضوں کا علاج پلازمہ تھراپی سے ہو سکتا ہے؟
ڈاکٹر فریدون کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کرونا وائرس کے صحت یاب مریضوں کی تعداد 50 ہزار سے زائد ہو چکی ہے۔ لہٰذا وائرس سے متاثرہ مریضوں کے علاج کے لیے پاکستان کے پاس پلازمہ دینے والوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔
ان کے بقول اگر صحت یاب مریض پلازمہ عطیہ کریں تو کافی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔