چین میں کرونا وائرس کے لیے بنائی گئی ایک ممکنہ ویکسین پر تحقیق کرنے والوں نے کہا ہے کہ بندروں پر تجربات کے حوصلہ افزا نتائج ملے ہیں، کیونکہ ان کے جسم میں اینٹی باڈیز بننا شروع ہوگئی
اور کوئی مضر اثرات سامنے نہیں آئے۔ اب ایک ہزار انسانوں پر تجربے کا آغاز کردیا گیا ہے۔
اس بارے میں طبی جریدے سیل میں ایک رپورٹ آن لائن شائع کی گئی ہے۔ اس کے مطابق، ممکنہ ویکسین کا نام بی بی آئی بی پی کوڈ وی ہے اور اس
میں ایسی اینٹی باڈیز شامل ہیں جو وائرس کو بے اثر کرتی ہیں۔ یہ اینٹی باڈیز بندروں، چوہوں، سوروں اور خرگوشوں میں متاثر خلیوں میں موجود وائرس کو روک دیتی ہیں۔
تحقیق کرنے والوں نے کہا ہے کہ ان نتائج سے ممکنہ ویکسین موثر معلوم ہوتی ہے جس کا اب کلینیکل تجربہ جاری ہے۔
اس ویکسین کو سرکاری ادارے چائنا نیشنل فارماسیوٹیکل گروپ، یعنی سینوفارم سے ملحقہ بیجنگ انسٹی ٹیوٹ آف بایولوجیکل پروڈکٹس نے تیار کیا ہے۔ یہ ان پانچ ویکسینز میں سے ایک ہے جن کے چین میں انسانوں پر تجربات کیے جا رہے ہیں۔
دنیا بھر میں کرونا وائرس کی سو سے زیادہ ممکنہ ویکسینز پر تجربات مختلف مرحلوں میں ہیں، جن ویکسینز کے انسانوں پر تجربات کیے جارہے ہیں انھیں بنانے والی کمپنیوں میں آسٹرازینیکا، فائزر، بایو این ٹیک، جانسن اینڈ جانسن، مرک، موڈرینا، سینوفی اور چین کی کین سینو بایولوجکس شامل ہیں۔
تحقیق کرنے والوں کا کہنا ہے کہ بی بی آئی بی پی کور وی نہ صرف محفوظ لگتی ہے اور جانوروں میں مدافعتی ردعمل کا سبب بنتی ہے بلکہ بظاہر اس سے وہ اینٹی باڈیز بھی نہیں بنتیں جن سے وائرس بڑھ سکتا ہے۔ اس عمل کو اینٹی باڈی ڈیپینڈنٹ انہانسمنٹ یا اے ڈی ای کا نام دیا جاتا ہے۔
جانوروں میں اے ڈی ای ظاہر نہ ہونے کے باوجود ضروری نہیں کہ یہ انسانوں پر تجربات میں سامنے نہ آئے۔
سینوفارم نے ویکسین کے منصوبوں کے لیے ایک ارب یوآن یا 14 کروڑ ڈالر سے زیادہ رقم فرایم کی ہے۔ اس کے تحت بی بی آئی بی پی کور وی کے علاوہ ایک اور ممکنہ ویکسین کے بھی انسانوں پر تجربات جاری ہیں جسے اس کے ووہان میں قائم مرکز نے تیار کیا ہے۔