انڈو نیشیا میں 14 جنوری کو نکل پگھلانے کی ایک چینی فیکٹری میں شروع ہونےوالےمہلک فسادات کے بعد کشیدگی جاری ہے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ یہ تشددایک چینی کمپنی کےکاروباری طریقوں پر روشنی ڈالتا ہے۔
14 جنوری کو انڈونیشی اور چینی کارکنوں کےدرمیان تصادم صرف ایک انڈو نیشی اور ایک چین کارکن کی ہلاکت کا باعث ہی نہیں بنا بلکہ اس سے ثقافتوں اور کاروباری طریقوں کے درمیان تنازعے کی بھی عکاسی ہوئی ۔
چینی مزدوروں کی ایک نگران تنظیم چائنا لیبر واچ کے ایکزیکٹو ڈائیریکٹر لی شیانگ انڈو نیشیا میں نکل پگھلانے کی ایک چینی فیکٹری کے 200 سے زیادہ کارکنوں سے خط وکتابت کرتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انڈونیشیا میں سرمایہ کاری کرنےوالی چینی کمپنی کا مقصد وہاں پیسہ کما نا ہے لیکن وہ اپنے ساتھ انڈونیشیا میں اچھےکاروباری طریقے نہیں لائی ۔
چین اپنے بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ کے ذریعے انڈونیشیا میں اس فیکٹری سمیت دنیا بھر میں تعمیراتی پراجیکٹس اور فیکٹریوں میں سرمایہ کاری کر رہا ہے ۔ مہلک فساد کے بعد پروڈکشن دوبارہ شروع ہو گئی ہے لیکن تشدد کےنشان باقی ہیں۔
فسادات پھوٹنےسے قبل انڈونیشی کارکن کمپنی کےعہدےداروں سے ملے تھےاور کام کےحالات میں تبدیلی ، اجرتوں میں اضافے اور ہڑتال پر جانے والے کارکنوں کو دوبارہ ملازمت دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ جب کمپنی یونین کے تمام مطالبات پورے نہ کر سکی تو انڈونیشی کارکنوں نے ایک مظاہرہ کیا۔
انڈونیشیاکے افرادی قوت کے نائب وزیر افریانشاہ نور کہتے ہیں کہ ان مسائل اور رابطوں کے فقدان نے مل کر آخر کارشدید صورت اختیار کرلی ۔
لی شیانگ کہتے ہیں کہ چینی کمپنی میں کبھی بھی لیبر یونین سے گفت وشنید کی روایت نہیں تھی ۔ چینی کمپنیاں کبھی بھی ایسا نہیں کریں گی۔ چین اپنے بھر پورمعاشی فوائد کے لیے سخت مشقتی مراکزپر انحصار کرتا ہے ۔ ایسا ہی ایک ماڈل انڈونیشیا میں بھی قائم کیا گیا ہے۔
چین کی یونیورسٹی آف نوٹینگھم کے ایک چینی ماہر ، ہونگ یی لائی کہتے ہیں کہ کاروبارکے چینی ماڈل انڈونیشیا کے علاوہ دوسرے ملکوں میں بھی موجود ہیں۔ان چینی پلانٹس میں سے کچھ میں مقامی کارکنوں کو ملازم رکھا جاتا ہے ، تو غالباًصرف جنوب مشرقی ایشیا ہی میں نہیں بلکہ افریقہ میں بھی مقامی کارکن ممکنہ طور پر اس تنخواہ میں کام نہیں کرنا چاہتے جو اتنے طویل اوقات کے لیے دی جاتی ہے۔
ہونگ یی لائی کہتے ہیں کہ چینی کارکنوں کو بھی کام پر رکھا جاتا ہے جو ان کے مطابق ایک ایسا ماڈل ہے جو چینی کارکنوں کا بھی استحصال کرتا ہے۔
چینی کارکنوں کےساتھ انڈونیشی کارکنوں سےبھی زیادہ سخت سلوک ہوتا ہے ۔ اگر کوئی چینی کارکن احکامات نہیں مانتا تو کمپنی کے پاس کارکنوں کو حراست میں رکھنےکی جگہیں ہیں۔ کمپنی پولیس کی کسی کارروائی کے بغیر انہیں بند کر سکتی ہے۔
چین کی نکل پگھلانےوالی فیکٹری نے ان الزامات کے بارےمیں وی او اے کی ای میل کا جواب نہیں دیا ہے ۔ اس نے وی او اے انڈونیشیا کو ایک ٹیکسٹ میسیج میں بتایا کہ انڈونیشیا کی فوج اور پولیس ابھی واقعے کی تفتیش کر رہی ہیں۔
چین یہ یقینی بنانے کےلیے انڈونیشیا سے قریبی رابطےمیں رہے گا کہ قانون کے مطابق اس واقعے سے مناسب طریقےسے نمٹا جائے۔
لائی کہتے ہیں کہ انڈونیشیا میں یہ فسا د چینیوں کے بارے میں بے اعتمادی کی تاریخ کے پس منظر میں ہوا ہے ۔
انڈونیشیا کی آبادی کی اکثریت میں ابھی تک چین کے بارے میں کچھ گہری بے چینی پائی جاتی ہے، خاص طور پر سیاسی شکوک ، چین کا ممکنہ اثر و رسوخ یا ملک کی سیاسی اور معاشی بنیاد میں چینی دخل اندازی سے متعلق پائے جانے والے شکوک و شہبات ۔
ایسے میں جب کہ کشیدگی جاری ہے، انڈو نیشی کارکن اور کمپنی تنازعے کو گفت و شنید کے ذریعے حل کر نے کی کوشش کر رہے ہیں۔
وی او اے