پاکستانی وزیرِ اعظم افغان صدر کی دعوت پر کابل جائیں گے

وزارتِ خارجہ کے ترجمان محمد فیصل نے جمعرات کو ہفتہ وار نیوز بریفنگ میں صحافیوں کو بتایا کہ اس دورے کی تاریخ کا تعین بھی ہو گیا ہے جس کا اعلان جلد کر دیا جائے گا۔

پاکستان نے تصدیق کی ہے کہ افغان صدر اشرف غنی کی دعوت پر وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی جلد کابل کا دورہ کریں گے۔

وزارتِ خارجہ کے ترجمان محمد فیصل نے جمعرات کو ہفتہ وار نیوز بریفنگ میں صحافیوں کو بتایا کہ اس دورے کی تاریخ کا تعین بھی ہو گیا ہے جس کا اعلان جلد کر دیا جائے گا۔

"یہ اُن کوششوں کا حصہ ہے جن کے تحت پاکستان افغانستان کے ساتھ اور بین الاقوامی برداری کے ساتھ بھی رابطے میں ہے تاکہ مسائل کا حل تلاش کیا جائے۔"

پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر ناصر خان جنجوعہ نے 17 مارچ کو کابل کا دورہ کیا تھا جہاں اُنھوں نے دیگر افغان قائدین کے علاوہ صدر اشرف غنی سے بھی ملاقات کی تھی۔

صدر اشرف غنی نے ناصر خان جنجوعہ کے ذریعے پاکستان کے وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کو کابل کے دورے کی دعوت دی تھی تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان ریاست کی سطح پر مذاکرات کا آغاز ہو سکے۔

اس دورے کے بعد پاکستان میں تعینات افغانستان کے سفیر عمر زخیلوال نے بھی وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی سے ملاقات کی تھی۔

واضح رہے کہ رواں ہفتے ہی ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند میں ہونے والی افغانستان میں امن سے متعلق کانفرنس کے دوران وزیرِ خارجہ خواجہ آصف نے کہا تھا کہ پاکستان صدر اشرف غنی کے اُس لائحۂ عمل کی حمایت کرتا ہے جس کے تحت افغان صدر نے طالبان کو مذاکرات کی دعوت اور مصالحتی عمل کو آگے بڑھانے کی بات کی ہے۔

خواجہ آصف نے تجویز دی تھی کہ طالبان کو تشدد ترک کر کے مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے اُن تمام ممالک کو مشترکہ دباؤ ڈالنے کی ضرورت ہے جن کا کسی نہ کسی طرح طالبان پر اثر و رسوخ ہے۔

دریں اثنا جمعرات ہی کو پاکستان کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے رواں سال فروری میں سوات میں ایک فوجی کیمپ پر حملے میں افغانستان کی سرزمین پر موجود طالبان کے ملوث ہونے سے متعلق شواہد اسلام آباد میں افغان سفارت خانے کے حوالے کردیے ہیں۔

بیان میں کہا گیا کہ افغانستان کی سرزمین پر کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان اور جماعت الاحرار کی پناہ گاہیں موجود ہیں جن کے خلاف پاکستان افغان حکومت سے کارروائی کرنے کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔

افغان حکومت کی طرف سے اس بیان پر فوری طور پر کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا ہے۔

لیکن افغانستان کی طرف سے بھی یہ الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ پاکستان میں اب بھی افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں جہاں سے وہ افغانستان کی سرزمین پر حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔

دہشت گردوں کی ایک دوسرے کی سرزمین پر پناہ گاہوں اور اُن کے خلاف ناکافی کارروائیوں کی وجہ سے دونوں ممالک کے عہدیدار ایک دوسرے کے خلاف بیانات دیتے رہے ہیں جس سے دوطرفہ تعلقات تناؤ کا شکار ہیں۔

توقع کی جا رہی ہے کہ جب دونوں ممالک کی سیاسی قیادت کے درمیان ملاقات ہو گی تو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کوششوں پر بھی تبادلۂ خیال ہو گا۔