پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے پاکستان میں پیدا ہونے والے بنگالی اور افغان مہاجرین کو پاکستان کی شہریت دینے کا عندیہ دیا ہے۔
اتوار کی شب کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کے دوران عمران خان نے کہا کہ افغان اور بنگالی مہاجر خاندانوں کے پاکستان میں پیدا ہونے والے افراد کو شناختی دستاویزات جاری کی جائیں گی۔
وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی میں کمی ہوئی ہے لیکن اسٹریٹ کرائم بڑھ گئے ہیں جس کی وجہ ان کے بقول یہ ہے کہ کم پڑھے لوگ جنہیں روزگار نہیں ملتا وہ مجبوراً جرائم کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ بنگلہ دیش سے آکر یہاں آباد ہونے والے بنگالی یا افغانستان سے آئے ہوئے افراد کے پاس پاکستان کا قومی شناختی کارڈ نہیں ہے جس کی وجہ سے انہیں کہیں نوکری نہیں ملتی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ طبقہ محروم چلا آرہا ہے، انہیں مجبوراً جرائم کی طرف مائل ہونا پڑتا ہے۔
وزیرِ اعظم نے کہا کہ وزیر داخلہ کا قلمدان ان کے پاس ہے ،وہ بنگلہ دیش سے آنے والے اور ایسے افغانیوں کو جو یہاں پلے بڑھے ہیں، قومی شناختی کارڈ دلائیں گے، انہیں پاکستان کا شہری بنائیں گے، انہیں تعلیم دیں گے۔
اپنے خطاب میں عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ بنگالی اور افغانیوں کی بڑی تعداد 40 سال سے ملک میں مقیم ہے۔ ان کے بقول، "میں وزارتِ داخلہ سے گزارش کروں گا کہ جو لوگ یہاں کئی دہائیوں سے موجود ہیں اور ان کے بچے پیدا ہوئے اور بڑے ہوگئے انہیں شناختی کارڈ جاری کیے جائیں۔ یہ بھی انسان ہیں اور ان کے حقوق ہیں۔"
کراچی میں گزشتہ کئی عشروں سے بنگالی اور افغان مہاجرین کی بڑی تعداد آباد ہے۔ ان میں سے اکثر لوگ شہر کے متعدد علاقوں میں واقع کچی اور بنیادی ضروریات سے محروم بستیوں میں رہتے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے گزشتہ دورِ حکومت میں وفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان نے دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کے سلسلے میں ان مہاجرین کے لیے قومی شناختی کارڈ کے اجرا کے حوالے سے قوانین انتہائی سخت کر دیے تھے جس کے بعد ان مہاجرین کو شناختی دستاویزات کا اجرا روکنے کے علاوہ انہیں پہلے سے جاری ہزاروں شناختی کارڈز منسوخ کردیے گئے تھے۔
افغان اور بنگالی مہاجرین کی موجودگی پاکستان بالخصوص سندھ کی سیاست میں ہمیشہ ایک اہم مسئلہ رہا ہے اور صوبے کی حکمران پاکستان پیپلز پارٹی اور سندھ کی قوم پرست جماعتیں بنگالیوں اور افغانیوں کو ملکی وسائل پر بوجھ قرار دیتے ہوئے ان کی واپسی کا مطالبہ کرتی آئی ہیں۔
سندھ کی قوم پرست جماعت 'سندھ ترقی پسند پارٹی' کے رہنما ڈاکٹر قادر مگسی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے مہاجرین کو شناختی دستاویزات کے اجرا کی مخالفت کی۔
انہوں نے کہا کہ وہ پہلے سے اس چیز کے مخالف ہیں اور کہتے آئے ہیں کہ سندھ میں غیر قانونی طور پر موجود تارکینِ وطن کو روکا جائے۔
انہوں نے کہا کہ سندھ میں بڑی تعداد میں افغانی اور بنگالی موجود ہیں جنہیں ان کے بقول دہشت گردی میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔
ادھر خیبر پختون خوا کے سیاسی، سماجی اور تجارتی شعبوں سے تعلق رکھنے والوں نے افغان اور بنگالیوں کو شہریت دینے کے حوالے سے وزیر اعظم عمران خان کے بیان پر ملے جلے رد عمل کا اظہار کیا ہے۔پشاور سے وائس آف امریکہ کے نمائندے شمیم شاہد نے بتایا ہے کہ قوم پرست سیاسی راہنماؤں اور افغانستا ن میں پاکستان کے سابق سفیر رستم شاہ مہمند نے وزیر اعظم کے اس اعلان کا خیر مقدم کیا اور اس اعلان پر جلد از جلد عمل درآمد کرنے پر زور دیا۔ تاہم پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک تاجر رہنما اور سماجی کارکن نے وزیر اعظم کے اس اعلان پر تحفظات کا اظہار کیا۔
افغانستا ن میں پاکستان کے سابق سفیر اور حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے راہنما رستم شاہ مہمند نے وائس آف امریکہ کے ساتھ بات چیت میں وزیر اعظم عمران خان کے بیا ن کو نہ صرف خوش آئند قرار دیا بلکہ کہا کہ اس فیصلے کے سیاسی اور تجارتی شعبوں پر مثبت اثرات مرتب ہونگے۔ اُنہوں نے عمران خان کے اس فیصلے کو 1951 کے شہریت سے متعلق قانون(ایکٹ) کے عین مطابق قرار دیا۔ اُنہوں نے کہا کہ ماضی کی حکومتوں کو یہ کام بہت پہلے ہی کرنا چاہیے تھا کیونکہ یہ لوگ پاکستان ہی میں پیدا ہوئے ہیں اور اب وہ اپنے ملکوں کو نہیں جاسکتے ۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) سے منسلک پشاور کے تاجر برادری کے راہنما حاجی شرافت علی مبارک نے وزیر اعظم کے اعلان کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ا ن لوگوں کو شہریت دینے سے مقامی لوگ جو پہلے ہی سے احساس محرومی کے شکار ہیں ، متاثر ہونگے اور ان کے تجارت پر منفی اثرات مرتب ہونگے۔ اُنہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کا یہ اعلان کراچی تک محدود ہے مگر افغان باشندوں کو شہریت دینے کے بجائے کراچی ہی میں رہائش پذیر پختون باشندوں کے حقوق کو محفوظ بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔
عوامی نیشنل پارٹی کے راہنما انجنیئر اعجاز خان یوسفزئی نے وزیر اعظم کے اس اعلان کو خوش آئند قرار دیا مگر اس پر عمل درآمد کے بارے میں شکوک و شہبات کا اظہار کیا۔ اُنہوں نے کہا کہ ماضی میں بھی بعض حکمرانوں اور سیاسی راہنماؤں نے اس قسم کے اعلانات کر رکھے تھے۔
معروف خاتون تجزیہ کار فرحت تاج نے بھی غیر مشروط طور پر افغان باشندوں کو پاکستان شہریت دینے کے مخالفت کی ہے اور کہا کہ پاکستانی شہریت ان افغان باشندوں کو دینی چاہیے کہ وہ سب سے پہلے افغان قومیت اور لرو بر کے نعرے سے دستبردار ہو جائے۔
2015-16 میں افغانستان کے ساتھ سرحدی پابندیوں کے اجراء اور ان کو غیر قانونی طریقے سے فراہم کی جانی والی قومی شناختی کارڈوں کی منسوخی کے بعد پاکستان کے مختلف علاقوں میں تاجروں کی ایک بڑی تعداد نے اپنا سرمایہ مختلف شہریوں سے متحدہ عرب امارات اور وسط ایشیائی ممالک منتقل کر دیا تھا۔