انسانی حقوق کے سرگرم کارکن اور ایڈوکیٹ سپریم کورٹ ضیاء احمد اعوان کا کہنا ہے کہ ’’پاکستان ہیومن ٹریفکنگ کا گڑھ نہیں، لیکن یہاں سے بڑے پیمانے پر انسانی اسمگلنگ ہوتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ مجھے لگتا ہے آئندہ کچھ سالوں میں چینی شہریوں کی بھی بڑی تعداد میں ہیومن ٹریفکنگ کے ذریعے غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم ہوگی۔‘‘
ان خیالات کا اظہار انہوں نے وائس آف امریکہ کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں کیا۔
اپنے مؤقف کی تائید میں انھوں نے کہا ہے کہ چین ’سی پیک‘، ’ون بیلٹ، ون روڈ‘ سرکولر ریلوے اور توانائی سمیت درجنوں تعمیری اور غیر تعمیری منصوبوں میں پاکستان کا معاون ہے جس کے سبب چینی ماہرین اور شہریوں کی ایک بڑی تعداد پاکستان میں اس وقت بھی مقیم ہے، خواہ وہ کراچی جیسی میگا شہر ہو یا جھمپیر جیسا چھوٹا علاقہ۔۔ہر جگہ چینی خواتین موبائل فونز بیجتے نظر آنے لگی ہیں حتیٰ کہ جہاں ہم نہیں جاسکتے وہاں بھی چینی موجود ہیں۔ تجارت اسی انداز میں بڑھتی رہی تو چینی شہریوں کے لئے پاکستان ’’پرکشش ملک ثابت ہوگا۔ ایسے میں ہیومن ٹریفکنگ کے امکانات سے کون انکار کرسکتا ہے۔ ‘‘
وی او اے کے استفسار پر انہوں نے کہا کہ’’چینی شہری شوق سے یہاں آئیں۔ وہ ہمارے سب سے اچھے دوست ہیں۔ لیکن آنے، جانے کے لئے ایک طریقہ وضع ہونا چاہئے۔ یوں نہ ہو کہ وہ بھی افغانیوں اور بنگالیوں کی روش اختیار کرلیں اور یہیں کہ ہوکر رہ جائیں۔‘‘
ضیاء اعوان ہیومن ٹریفکنگ پر گہری نظر اور تحقیق رکھتے ہیں۔ وہ ’’لائرز فار ہیومن رائٹس اینڈ لیگل ایڈ" اور ’مددگار‘ کے نام سے قائم غیر سرکاری تنظیم کے روح رواں بھی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’’ہیومن ٹریفکنگ ایک قسم کی نہیں ہوتی بلکہ وزٹ ویزا پر جاکر گم ہو جانا، ویزا کی مدت سے زیادہ قیام، اسٹوڈنٹ ویزا پر جاکر ملازمت کرنا، پاسپورٹ میں جعل سازی، دوسروں کے پاسپورٹ پر سفر، بچوں کی ولادت کے لئے کاغذات میں ہیر پھیر اور جھوٹے رشتے بنا کر بیرون ملک قیام اور سیاسی پناہ۔۔وغیرہ، یہ سب بھی ہیومن ٹریفکنگ کی ہی قسمیں ہیں۔‘‘
پاکستان ایسا ملک ہے جو انسانوں کے غیرقانونی ’تاجروں‘ یا ’اسمگلرز‘ کے لئے دوہرے فائدہ کا سبب ہے۔ایک جانب اسے بطور ’راہداری‘ انسانوں کو غیر قانونی طریقے سے دوسرے ممالک بھیجنے کے لئے ’محفوظ‘ سمجھا جاتا ہے تو دوسری جانب اس کے اپنے شہری یہ یقین رکھتے ہیں کہ غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے کے لئے پاکستان سے ’آسان اور پرکشش ملک‘ کوئی اور نہیں۔
ضیاء اعوان کہتے ہیں ’’جن ممالک کے شہری غیر قانونی طور پر قیام کے لئے یا اس سے آگے جانے کے لئے یہاں کا رخ کرتے ہیں ان میں افغانی اور ایرانی سرفہرست ہیں۔ اس کے بعد بنگالی اور برمی ہیں۔ پاکستان سے آگے ان کی منزل ملائشیاء، تھائی لینڈ، نیوزی لینڈ یا آسٹریلیا ہوتی ہے۔ ـ‘
بقول اُن کے، ’’اس کے برعکس، پاکستان میں سب سے زیادہ لوگ خیبر پختونخواہ سے غیر قانونی طور پر بیرون ملک جاتے ہیں۔ اس کے بعد پنجاب، پھر سندھ اور آخر میں بلوچستان کا نمبر آتا ہے۔‘‘
وی او اے کے نمائندے سے ایف آئی اے کی جاری کردہ معلومات شیئر کرتے ہوئے ضیاء اعوان نے بتایا کہ ’’پاکستان سے سب سے زیادہ لوگ مسقط اور اومان جاتے ہیں۔ ایسے لوگ ایران کو بطور راہداری استعمال کرتے ہیں۔ یہاں سے لوگ ایران جاتے ہیں، چاہ بہار میں قیام کرتے اور پھر مختلف غیر قانونی ذرائع استعمال کرکے آگے نکل جاتے ہیں۔‘‘
ان کے مطابق’’ہیومن اسمگلنگ کے لئے اپنایا جانے والا دوسرا روٹ وہ ہے جس کے ذریعے لوگ ترکی جاتے ہیں۔ ترکی کے بعد ان کی اگلی منزل یونان یا پھر اسپین ہوتی ہے۔ اس روٹ کو استعمال کرنے والے زیادہ تر یورپی ممالک کو اپنی منزل سمجھتے ہیں۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں ضیاء اعوان کا کہنا تھا کہ ’’انسانی اسمگلنگ کو روکنے کے لئے بنائے گئے ملکی قوانین دیگر ایشیائی ممالک کے مقابلے میں سب سے اچھے ہیں۔ لیکن، کرپشن ان قوانین کی جڑوں کو تہس نہس کئے ہوئے ہے۔‘‘
بقول اُن کے، ’’پاکستان میں ہیومن ٹریفکنگ میں ملوث جعلی ایجنٹس کے نیٹ ورکس بہت فعال ہیں جو ملکی سیاسی، معاشی، مذہبی یا ذاتی حالات کے ہاتھوں تنگ آئے لوگوں کو سبز باغ دکھاتے ہیں۔ ان سے بڑی بڑی رقمیں اینٹھتے ہیں اور انہیں کبھی کشتیوں میں تو کبھی لانچوں اور کبھی ہوائی جہاز کے ذریعے ایک ملک سے دوسرے ملک کا غیر قانونی طریقے سے سفر کراتے ہیں۔ غیر قانونی ایجنٹس اور سب ایجنٹس کا جال ان ممالک میں بھی سرگرم ہے جہاں لوگ جانا چاہتے ہیں۔‘‘
سنہرےخوابوں کے قیدی
جعلی ایجنٹس کے جھانسے میں آنے والے اکثر و بیشتر افراد غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ کچھ غربت سے پریشان، کچھ تنگدستی کے ہاتھوں مجبور، کچھ بیروز گار، کچھ قرض دار تو کچھ بہتر مستقبل کے خواہشمند اور سنہرے خوابوں کے قیدی ہوتے ہیں۔ اپنی منزل یا اپنی خواہش کے حصول میں یہ ناجائز طریقے سے ایک ملک سے دوسرے ملک اور دوسرے سے تیسرے ملک کی سرحدیں عبور کرنے کا رسک لیتے ہوئے بھی نہیں ڈرتے، حالانکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ چوری چھپے سرحدوں سے نکلنے کی کوشش کرنا ان کے لئے جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔
ایسے افراد کو یہ تک معلوم ہوتا ہے کہ ذرا سی بھنک پڑی نہیں کہ سرحدی محافظ انہیں فائرنگ کا نشانہ بناسکتے ہیں۔ لیکن، اس کے باوجود، وہ سب کچھ کر گزرتے ہیں۔۔۔ یہی غلط ’حوصلےــ‘دراصل ہیومن ٹریفکنگ کو آج تک جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہاں تک کہ اسے روکنا بھی کوئی آسان کام نہیں۔