پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے بلوچستان کے مسائل کرنے کے لیے بلوچ عسکریت پسند رہنماؤں سے مذاکرات کا عندیہ دیا ہے جس کے بعد سیاسی حلقوں میں یہ بحث جاری ہے کہ آیا بلوچستان کے معروضی حالات کے تناظر میں ایسا ممکن ہو سکے گا یا نہیں۔
عمران خان نے ان خیالات کا اظہار پیر کو گوادر میں مقامی عمائدین اور طلبہ سے خطاب کے دوران کیا تھا۔
عمران خان نے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری کی بلوچستان پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ دونوں نے بلوچستان کے بجائے لندن اور دبئی کے دورے کرنے کو ترجیح دی۔
وزیر اعظم کے بقول، نواز شریف نے اپنے دورِ حکومت میں لندن کے 24 دورے کیے جن میں 23 نجی دورے تھے۔ اسی طرح سابق صدر آصف علی زرداری نے دبئی کے 51 دورے کئے مگر شاید ایک بار بھی وہ گوادر نہیں آئے ہوں گے۔
البتہ، دونوں رہنماؤں کا ماضی میں یہ مؤقف رہا ہے کہ اُنہوں نے بلوچستان میں احساسِ محرومی ختم کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے۔
کیا وزیرِ اعظم کے پاس عسکریت پسندوں سے بات چیت کرنے کا اختیار ہے؟
وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ سوچا تھا کہ جب بھی موقع ملا تو ہم بلوچستان پر ضرور توجہ دیں گے۔
اُن کا کہنا تھا کہ "میں بلوچستان میں مزاحمت کرنے والوں سے بھی بات کرنے کا سوچ رہا ہوں ہو سکتا ہے کہ ان کی ماضی میں رنجشیں رہی ہوں، یا ہندوستان انہیں انتشار پھیلانے کے لیے استعمال کرے مگر اب حالات تبدیل ہو رہے ہیں۔"
وزیرِ اعظم کی جانب سے بلوچ عسکریت پسندوں سے بات چیت کر کے انہیں قومی دھارے میں شامل کرنے کے بیان کو بعض حلقے خوش آئند قرار دے رہے ہیں جب کہ کچھ حلقوں نے اس بیان پر وزیرِ اعظم پر تنقید کی ہے۔
بلوچستان کے بلوچ بزرگ سیاسی رہنما ڈاکٹر حکیم لہڑی نے وائس آف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے بیان پر ردِعمل میں کہا کہ پاکستان کے حکمرانوں پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ آج تک انہوں نے بلوچوں کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کی پاسداری نہیں کی۔
حکیم لہڑی کے بقول، رواں برس مارچ میں بھی لاپتا افراد کے لواحقین نے اسلام آباد میں دھرنا دیا جن سے وزیرِ اعظم نے ملاقات کی اور یقین دہانی کرائی گئی مگر ابھی تک ان لوگوں کے پیاروں کو بازیاب نہیں کرایا جا سکا۔
انہوں نے تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 1948 کے بعد سے لے کر تاحال بلوچوں سے بات چیت کے دعوے کیے گئے، لیکن بلوچوں کو مبینہ طور پر دھوکے کے سوا کچھ نہیں ملا۔
حکیم لہڑی کےبقول "1948 میں آغا عبدالکریم خان کو دھوکہ دیا گیا، 1958 میں نواب نوروز خان کو دھوکہ دے کر ان کو تمام ساتھیوں سمیت پھانسی دی گئی، سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور ایوب خان نے بھی بلوچوں کے ساتھ یہی کیا۔ اس کے بعد ضیا الحق کا دور حکومت آیا انہوں نے بھی بلوچوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔"
خیال رہے کہ پاکستان کے رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں قوم پرست جماعتوں کے رہنما وسائل میں مناسب حصہ نہ دینے پر گلے شکوے کرتے رہتے ہیں۔ البتہ 2006 میں سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے دور میں بلوچ رہنما نواب اکبر بگٹی کی فوجی آپریشن میں ہلاکت کے بعد بلوچستان میں مسلح مزاحمت میں اضافہ دیکھنے میں آیا تھا۔
حکیم لہڑی کا کہنا تھا کہ سابق وزرائے اعظم محمد نوازشریف اور بینظیر بھٹو نے بھی وہی کام کیے جو ماضی میں ہوتا رہا آخر میں سابق صدر (ر) جنرل پرویز مشرف نے بلوچستان میں جو کچھ کیا وہ دنیا کے سامنے ہے۔ اس حکومت کے بعد سے آج تک بلوچستان میں فوجی آپریشنز کا سلسلہ جاری ہے۔
چین کی خواہش اور افغانستان کی صورتِ حال
بلوچستان کے صحافی اور تجزیہ کار رشید بلوچ سمجھتے ہیں کہ بات چیت کے لیے ضروری ہے کہ جمہوری حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر ہوں اور ان کی سوچ میں بلوچوں کے حوالے سے یکسانیت پائی جائے۔
رشید بلوچ کے بقول، بات چیت کا عمل شروع کرنے سے قبل بلوچستان، سندھ اور پنجاب کی سیاسی اور قبائلی قیادت کو اعتماد میں لینا ہو گا جو غیر متنازع ہو اور حکومت اور بلوچ علیحدگی پسندوں کے لیے قابلِ قبول ہوں۔
انہوں نے بتایا کہ تین برس بعد وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے اچانک بلوچ علیحدگی پسندوں سے بات چیت کرنے کے بیان کے کئی مقاصد ہو سکتے ہیں۔
اُن کے بقول بظاہر ایسا لگتا ہے کہ چین کی خواہش پر بلوچستان میں قیامِ امن کے لیے بات چیت کا عندیہ دیا گیا ہے تاکہ سی پیک منصوبوں کو عملی جامہ پہنایا جا سکے۔
رشید بلوچ کے مطابق بلوچوں سے بات کرنے کی خواہش صرف وزیر اعظم کی نہیں بلکہ چین بھی چاہتا ہے کہ بلوچ علیحدگی پسندوں سے کسی طرح بات کر کے انہیں قومی دھارے میں شامل کیا جائے۔
اُن کے بقول دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ امریکہ کے افغانستان سے فوجی انخلا سے خطے کی صورتِ حال بدل رہی ہے اور اس سے بلوچستان بھی متاثر ہو سکتا ہے اس لیے صورتحال کو کنٹرول میں لانے کی حکمت عملی کے تحت وزیرِ اعظم نے یہ بات کی ہے۔
بلوچ عسکریت پسند کیا چاہتے ہیں؟
یار رہے کہ 2015 میں بلوچ ری پبلکن پارٹی کے سربراہ اور جلا وطنی کی زندگی گزارنے والے رہنما براہمداغ بگٹی یہ کہہ چکے ہیں کہ بلوچستان سے متعلق مذاکرات صرف ان لوگوں سے ہوں گے جن کے پاس اختیارات ہیں۔
رشید بلوچ کے مطابق براہمداغ بگٹی ہی نہیں بلکہ دیگر علیحدگی پسند تنظیموں، مزاحمت کار اور بیرون ملک خود ساختہ جلا وطن بلوچ سیاسی رہنماؤں کا بھی یہی مؤقف ہے کہ مذاکرات فوجی اسٹیبلشمنٹ سے ہی ہوں گے۔
ان کے بقول اگر علیحدگی پسند فوج سے گارنٹی دینے پر مذاکرات کرنے کا کہتے ہیں تو ایسا ہی ہونا چاہیے اس سے بلوچستان کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔
یاد رہے کہ 2013 میں سابق وزیرِ اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبد المالک بلوچ اور اس وقت وفاقی وزیر جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے سوئٹزر لینڈ میں مقیم بلوچ ری پبلکن پارٹی کے سربراہ براہمداغ بگٹی سے مذاکرات کیے تھے۔
رشید بلوچ کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں بظاہر براہمداغ بگٹی کے مطالبات ایسے نہیں تھے جو ریاستِ پاکستان کے لیے قابلِ قبول نہ ہوں۔
ادھر منگل کو اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ بھارت سے لاتعلق ناراض بلوچ رہنماؤں سے بات چیت پر کام شروع کر دیا گیا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ بھارتی جاسوس کلبھوشن جادھو کی گرفتاری کے بعد بلوچستان میں بھارت کا بڑا نیٹ ورک بے نقاب ہو گیا ہے۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں دہشت گردوں کا نیٹ ورک توڑنے میں کامیابی ملی ہے جس کی تفصیلات جلد سامنے لائی جائیں گی۔