بھارت کے وزیرِاعظم نریندر مودی نے کشمیر میں نوجوانوں کو یقین دلایا ہے کہ وہ اپنے والدین اور دیگر آباؤ و اجداد کی طرح تکالیف نہیں اٹھائیں گے۔
اتوار کو جموں و کشمیر کے ایک روزہ دورے کے دوران سرحدی ضلعے سانبہ میں پالی کے مقام پر ایک جلسے سے خطاب میں نریندر مودی کا کہنا تھا کہ پانچ اگست 2019 کے بعد جمہوریت اور ترقی جموں و کشمیر کے عوام میں نچلی سطح تک پہنچ رہی ہے۔ نوجوان نسل کو اس سے بھر پور فائدہ اٹھانے کے مواقع فراہم کیے جا رہے ہیں۔
پانچ اگست 2019 کے بعد جب نئی دہلی نے اپنے زیرِ انتظام کشمیر کی آئینی نیم خود مختاری کو ختم کرکے ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کیا تھا اور پھر انہیں براہِ راست وفاق کے زیرِ کنٹرول علاقے قرار دیا تھا، اس کے بعد یہ وزیرِ اعظم نریندر مودی کا جموں و کشمیر کا پہلا دورہ ہے۔
جلسے کا اہتمام بھارت میں قومی یوم پنچائت راج کے موقعے پر کیا گیا تھا اور اس میں پنچایتوں اور دوسرے بلدیاتی اداروں کے اراکین کے علاوہ حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے کارکنوں اور حامیوں نے شرکت کی۔
جلسےسے خطاب کرتے ہوئے نریندر مودی نے کہا کہ وہ جموں و کشمیر کے نوجوانوں کو یقین دلاتے ہیں بلکہ ان سے یہ وعدہ کرتے ہیں کہ انہیں وہ مصائب و مشکلات نہیں اٹھانی پڑیں گی جن کا ان کے والدین اور دادا، دادی یا ان سے اگلی نسل کے افراد کو سامنا کرنا پڑا تھا۔
انہوں نے کہا کہ بات جمہوریت کی ہو یا تعمیر و ترقی کی، آج جموں و کشمیر میں ایک نئی تاریخ رقم کی ہو رہی ہے اور ایک نئی مثال قائم کی جا رہی ہے۔ گزشتہ دو تین برس میں جموں و کشمیر میں ترقی کا دور دورہ ہے اور اس سال کا قومی یومِ پنچایت جموں و کشمیر میں منایا جا رہا ہے، جو ایک بہت بڑی تبدیلی ہے۔
SEE ALSO: مودی کے دورۂ کشمیر سے قبل غیر معمولی انتظامات، جھڑپوں میں فوجی افسر سمیت 7 افراد ہلاکانہوں نے اس بات کو قابلِ فخر قرار دیا کہ جمہوریت جموں و کشمیر میں نچلی سطح تک پہنچ گئی ہے۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ یومِ پنچایت راج پر بھارت بھر میں سرکاری سطح پر تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ وزیرِ اعظم نریندر مودی نے اس طرح کی تقریب میں شرکت کرنے کے لیے جموں و کشمیر ہی کا انتخاب ملک اور ملک کے باہر ایک سیاسی پیغام پہنچانے کے لیے کیا ہے۔
بھارت کی مرکزی حکومت کا دعویٰ ہے کہ پانچ اگست 2019 کے بعد جموں و کشمیر میں نہ صر ف علیحدگی پسند تشدد میں کمی آ گئی ہے اور علاقہ امن اور سیاسی استحکام کی طرف بڑھ رہا ہے بلکہ اس کے اقتصادی اور معاشی حالات بھی تیزی کے ساتھ بہتر ہو رہے ہیں۔
بھارت کے وزیرِ اعظم کے خطاب سے پہلے جموں و کشمیر کے لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا نے اپنی تقریر میں کہا کہ نریندر مودی کی متحرک اور فعال قیادت میں بھارت میں 70 سال کے بعد ایک ودھان، ایک نشان اور ایک پردھان (ایک آئین، ایک جھنڈا اور ایک وزیرِ اعظم) کا خواب شرمندہٴ تعبیر ہوا ہے اور پانچ اگست 2019 کے بعد جموں و کشمیر کے لوگوں نے بھی نئے خواب دیکھنا شروع کیے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پہلی بار جموں وکشمیر سے لے کر کنیا کماری تک پورے ملک کو ایک جھنڈا ملا ہے اورایک لیڈر نصیب ہوا ہے۔
بھارت کے آئین کی دفعات 370 اور 35-اے، جنہیں پانچ اگست 2019 کو منسوخ کیا گیا تھا، کے تحت جموں و کشمیر کو خصوصی آئینی درجہ حاصل تھا۔ جموں و کشمیر کو حاصل خود مختاری کے تحت اس کا سربراہِ حکومت وزیرِ اعظم اور سربراہِ ریاست صدر کہلاتے تھے۔ اس خصوصی آئینی درجے کے تحت حاصل اختیارات کو کم اور تحفیف کرنے کا سلسلہ 1960 کی دہائی میں شروع ہوا تھا۔ ان عہدوں کے اختیارات میں تبدیلی لاکر انہیں بھارت کی دیگر ریاستوں ہی کی طرح بالترتیب وزیر اعلیٰ اور گورنر میں بدل دیا گیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
پانچ اگست 2019 کے بعد ریاست کے آئین، تعزیراتی قوانین، جو ‘رنبیر پینل کوڈ’ کہلاتے تھے، اور پرچم کو بھی منسوخ کیا گیا اور اب جموں و کشمیر میں بھارت کا آئین، پینل کوڈ اور پرچم رائج ہیں۔
نیز گزشتہ 33 ماہ کے دوران بھارت کی حکومت اور ان کی پشت پناہی میں مقامی انتظامیہ نے کئی متنازع اقدامات کیے ہیں، جن میں جموں و کشمیر میں ایک کے بعد دوسرا قانون نافذ کرنا اور پہلے سے موجود قوانین بالخصوص ڈومیسائل اور اراضی سے متعلق قواعد میں رد وبدل بھی شامل ہے، جس سے مقامی مسلم آبادی میں بے چینی کی کیفیت ہے۔
حکمران بی جے پی کو چھوڑ کر تقریبا" سب ہی سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ ان اقدامات سے جموں و کشمیر اور اس کے عوام کے مفادات کو نقصان پہنچ رہا ہے جب کہ بھارت نواز علاقائی جماعتوں نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اور استصواب رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں کا اتحاد حریت کانفرنس بر ملا طور پر یہ الزام لگاتی آئی ہیں کہ ان اقدامات کا مقصد مسلم اکثریتی ریاست میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنا ہے۔
حزبِ اختلاف حکومت کے اس دعوے کو بھی کہ پانچ اگست 2019 کے بعد جموں و کشمیر میں تعمیر و ترقی کا دور دورہ ہے اور امن و امان بحال ہوا ہے، بی جے پی کی سیاسی بازی گری قرار دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ریاست میں پانچ اگست 2019 کے بعد سیاسی بے چینی میں اضافہ ہوا ہے۔ ان سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے بقول ظلم و جبر کے ذریعے قائم کیے گئے نام نہاد امن کے نتیجے میں دراصل علاقے میں قبرستان سی خاموشی چھائی ہوئی ہے۔
وزیرِ اعظم نریندرمودی نے اتوار کو سانبہ کے مقام پالی میں منعقدہ تقریب پر ملک اور بیرونِ ملک بالخصوص متحدہ عرب امارات کے سرکردہ صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں کی موجودگی میں 20 ہزار کروڑسے زائد روپے کے صنعتی ترقیاتی منصوبوں کی نقاب کشائی کی۔ جو ان کے بقول علاقے کوترقی کے ایک نئے دور میں داخل کر دیں گے۔
انہوں نے جن ترقیاتی منصوبوں کے سنگِ بنیاد رکھا یا ان کا افتتاح کیا ان میں دریائے چناب پر بننے والے 850 میگاواٹ کا رتل اور 560 میگاواٹ کا کوار پن بجلی پروجیکٹ بھی شامل ہیں۔ جن پر پاکستان نے یہ کہہ کر اعتراضات اٹھائے ہیں کہ یہ دونوں ملکوں کے درمیان 1960 میں طے پائے انڈس واٹر ٹریٹی یا سندھ طاس آبی معاہدے کی خلاف وزری کرتے ہوئے تعمیر ہورہے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
بھارت کے وزیرِ اعظم نے پالی کے مقام پر 500 میگاوٹ کے سولر پاور پلانٹ کا افتتاح بھی کیا۔نریندر مودی نے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ جب 'ایک بھارت، بہترین بھارت' کی بات کرتے ہیں تو ان کا مرکزِ نگاہ دوریاں کم کرنا ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ جہاں تک جموں و کشمیر کا تعلق ہے ان کا مقصد اس کے اور باقی ملک کے مابین ہر موسم میں رابطے کو یقینی بنانا ہے۔ وہ دن زیادہ دور نہیں جب دیوی کنیا کماری ایک شاہراہ کے ذریعے ویشنو دیوی (جس کا مندر جموں کے قریب تری کوٹا پہاڑی کے بیچوں بیچ واقع ہے) سے آ ملے گی۔
انہوں نےجن دوسرے منصوبوں کا افتتاح کیا ان میں وادیٴ کشمیر میں قاضی گنڈ اور جموں کے علاقے میں واقع بانہال کے درمیان پیر پنجال سلسلہِ کوہ سے گزرنے والی ایک نئی ٹنل بھی شامل ہے۔ دو ٹیوب والی ٹنل سے ان دو علاقوں کے درمیان فاصلے 16 کلومیٹر کم ہو گیا ہے۔
وزیرِ اعظم مودی نے جموں و کشمیر میں کٹرہ کے مقام اور دہلی کے درمیان ایک ایکسپریس وے کا سنگِ بنیاد بھی رکھا۔ یہ شاہراہ تاریخی شہر امرتسر سے گزرے گی۔
نریندر مودی نے کہا کہ وہ کشمیر ترقی کا پیغام دینے آئے ہیں۔ جموں و کشمیر میں تعمیر و ترقی کو فروغ دینےکے لیے 20 ہزار کروڑ روپے کے منصوبوں کی نقاب کشائی کی گئی ہے۔ کئی نجی سرمایہ کار جموں و کشمیر میں آکر مختلف منصوبوں پر پیسہ لگانا چاہتے ہیں اور یہ علاقے میں روزگار کے نئے مواقع پیدا کردے گا اور اس کی صنعت و حرفت کو بھی چارچاند لگ جائیں گے جب کہ وادیٴ کشمیر میں سیاحت فروغ پا رہی ہے۔ نیز لوگ مرکزی حکومت کی طرف سے ملک میں متعارف کرائی گئی فلاحی اسکیموں سے اب براہِ راست فائدہ اٹھارہے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے اور نئے قوانین متعارف کرانے کا بلواسطہ ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اب سماج کے کمزور طبقوں، خواتین اور بچوں کو بھی مساوی حقوق حاصل ہیں۔ وہ فلاح و بہبود کی اسکیموں اور پروگراموں کا دوسرے عام شہریوں ہی کی طرح فائد ہ اٹھارہے ہیں۔
مودی کے اس دورے کے لیے غیر معمولی حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے۔ ان کی آمد سے پہلے جموں کے ایک مضافاتی گاؤں میں ایک پُر اسرار دھماکہ ہوا تاہم اس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
ان کے دورے سے دو دن پہلے جموں کے مضافاتی علاقے سنجوان میں ہوئی ایک جھڑپ کے دوران دو مشتبہ عسکریت پسند اور ایک سیکیورٹی افسر ہلاک اور نو اہل کار زخمی ہوئے تھے۔
حکام نے کہا تھا کہ یہ فدائین کا ایک گروپ تھا جو نریندر مودی کے دورے کے موقعے پر کوئی بڑی کارروائی کرنے والا تھا۔
ایک اعلیٰ پولیس افسر مکیش سنگھ نے دعویٰ کیا کہ مارے گئے عسکریت پسندوں کا تعلق کالعدم تنظیم جیشِ محمد سے تھا اور وہ صرف پشتو میں بات کر رہے تھے۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کا تعلق یا تو افغانستان سے تھا یا پھر وہ پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے باشندے تھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ پولیس کو خفیہ ذرائع سے یہ اطلاع ملی تھی کہ دہشت گردوں نےوزیرِ اعظم نریندر مودی کے دورے سے پہلے علاقے میں کوئی بڑی کارروائی کرنے کامنصوبہ بنالیا ہے۔ سیکیورٹی فورسز نے جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب کو سنجوان کے جلال آباد علاقے میں ایک آپریشن شروع کیا جس کے آغاز پر ہی وہاں چھپے عسکریت پسندوں نے ان پر فائرنگ کردی اور جوابی کارروائی میں دونوں عسکریت پسند ہلاک ہوگئے۔
پولیس نے اس واقعے میں ہلاک ہونے والے مبینہ عسکریت پسندوں کی مدد کرنے کے الزام میں وادیٴ کشمیر سے تعلق رکھنے وال دو بھائیوں شفیق احمد اور آصف احمد کو گرفتار کرلیا ہے اور ایک اور شہری بلال احمد وگے کو اسی الزام میں گرفتار کرنے کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
وزیرِ اعظم مودی کی آمد سے پہلے وادیٴ کشمیر میں بھی مشتبہ عسکریت پسندوں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان شمال مغربی ضلع بارہمولہ اور جنوبی ضلعے کلگام میں شدید جھڑپیں ہوئیں جن میں پولیس کے مطابق لشکرِ طیبہ کے ایک اہم کمانڈر یوسف کانتر سمیت پانچ عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا گیا۔