پاکستان کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے رکن قومی اسمبلی عائشہ گلا لئی کی طرف سے تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان پر لگائے جانے والے الزامات کی تحقیقات کے لیے خصوصی پارلیمانی کمیٹی بنانے کی تجویز دی ہے۔
ان کی اس تجویز کے بعد قومی اسمبلی میں اس ضمن میں پیش کی گئی ایک قرارداد کو ارکان نے کثرتِ رائے سے منظور کر لیا ہے۔
جمعے کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران عائشہ گلالئی کی طرف سے عمران خان پر لگائے جانے والے الزامات کا معاملہ زیر بحث آیا۔
اس موقع پر اجلاس میں موجود وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ یہ ایوان کے تقدس کا مسئلہ ہے۔
"ہم نے اس ایوان کی عزت بنانی ہے، اس میں کمی نہیں کرنی، گالی گلوچ کر کے۔۔۔ میری یہ آپ سے گزارش ہے کہ ایک خصوصی کمیٹی بنا دیں جو ان کیمرہ ہو، پبلک نہ ہو۔ یہ ایوان کا معاملہ ہے اور ہاؤس ہی میں حل ہونا چاہیے۔"
اُنھوں نے کہا کہ جن پر الزام لگا ہے، ہم اُن کا بھی احترام کرتے ہیں اور اُن کا حق ہے کہ وہ ان الزامات کے خلاف اپنا دفاع کرسکیں۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اُنھیں میڈیا کے ذریعے یہ معلوم ہوا ہے کہ عائشہ گلالئی تحفظ چاہتی ہیں اور اس لیے انہوں نے اسلام آباد پولیس کے سربراہ کو خاتون ایم این اے کو سکیورٹی فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے۔
تحریک انصاف کے ایک مرکزی رہنما شفقت محمود نے جمعہ کو ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ اُنھیں اس کمیٹی سے انصاف کی توقع نہیں۔
’’ہم ہر (طرح کی) تحقیقات کے لیے تیار نہیں بلکہ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ تحقیقات ہونی چاہیئں لیکن ایک ایسی کمیٹی سے جو ہمارے سیاسی حریفوں کی کمیٹی ہو گی جس کا مقصد یہ ہے کہ وہ ہمیں نیچا دکھائیں کیا وہ شفافیت کے ساتھ ایسا کر سکیں گے۔۔۔ تو ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کمیٹی جو ہے اس کا رول ٹھیک نہیں ہے یہ کمیٹی ایک غیر جانبدار طریقے سے (کام) نہیں کر سکے گی۔‘‘
جمعہ کو بھی ایوان میں موجود تحریک انصاف کے اراکین بالخصوص رکن اسمبلی شیریں مزاری نے پارلیمانی کمیٹی کی تجویز اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اُن کے خلاف وفاقی وزیر خواجہ آصف نے نا مناسب جملے کہے تھے لیکن اس پر خواجہ آصف کے خلاف اب تک کوئی کارروائی نہیں۔
واضح رہے کہ عائشہ گلالئی تحریکِ انصاف کی طرف سے خواتین کی مخصوص نشست پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئی تھیں اور اُن کا تعلق قبائلی علاقے سے ہے۔
عائشہ گلالئی نے رواں ہفتے اپنی جماعت کے چیئرمین عمران خان اور صوبہ خیبر پختونخواہ کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک پر الزامات لگائے تھے۔
اُنہوں نے پارٹی قائدین پر کرپشن کرنے اور مبینہ بدعنوانی کا نوٹس نہ لینے سمیت دیگر الزامات کے علاوہ یہ الزام بھی لگایا تھا کہ تحریکِ انصاف میں خواتین کی عزت محفوظ نہیں۔
عائشہ گلا لئی نے یہ الزام بھی لگایا ہے کہ عمران خان نے اُنھیں موبائل فون کے ذریعے ’قابل اعتراض‘پیغامات بھیجے تھے۔ تاہم اُنھوں نے تاحال اس حوالے سے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا ہے۔
تحریکِ انصاف کے قائدین اور اراکین نے نہ صرف عائشہ گلالئی کے الزامات کی سختی سے تردید کی ہے بلکہ اُن پر جوابی الزامات لگانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
عائشہ گلالئی نے تحریکِ انصاف چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ قومی اسمبلی کی اپنی نشست سے استعفیٰ نہیں دیں گی جب کہ تحریکِ انصاف نے خاتون رہنما کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب جب کہ وہ ’پی ٹی آئی‘ چھوڑ چکی ہیں تو اُنھیں اسمبلی رکنیت سے بھی مستعفی ہو جانا چاہیے۔