بیلجیئم کی پولیس کی اتوار کو دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں مظاہرین کے ساتھ جھڑپ ہوئی جو برسلز میں ہونے والے خود کش حملوں میں ہلاک و زخمی ہونے والوں کے لیے بنائی گئی ایک عارضی یادگار پر جمع تھے۔
دوسری طرف تحقیق کاروں نے دہشت گردوں کی تلاش میں مزید چھاپے مار کر چار افراد کو تحویل میں لے لیا ہے۔
پولیس نے سٹاک ایکسچینج کے سامنے جمع مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے تیز دھار پانی استعمال کیا۔ اس مقام پر منگل کو ہونے والے حملے کے متاثرین کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے لوگوں نے یادگار بنائی ہے۔
سیاہ لباس میں ملبوس افراد داعش مخالف بینر اٹھائے یادگار کے کچھ حصوں کو کچلتے ہوئے نازی نعرے لگا رہے تھے۔ بینر پر غیر مہذب زبان استعمال کی گئی تھی۔ پولیس نے دس افراد کو گرفتار کر لیا جبکہ دو پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے۔
پولیس کمشنر کرسچن ڈی کوننک نے کہا کہ ’’مختلف فٹ بال کلبوں سے تعلق رکھنے والے 340 غنڈہ گرد برسلز آئے تھے اور ہمیں یقینی طور پر معلوم تھا کہ وہ کوئی مسئلہ کھڑا کریں گے۔‘‘
’’یہ بہت مشکل پولیس آپریشن تھا کیونکہ بہت سے خاندان اور بچے وہاں موجود تھے۔‘‘
جو افراد وہاں حملے کے متاثرین کے لیے اظہار یکجہتی کرنے آئے تھے انہیں بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔
پینتیس سالہ سمیعہ عروسمانی نے کہا کہ ’’ہمارے کے لیے وہاں آنا علامتی طور پر اہم تھا۔‘‘
مگر ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’’یہاں بہت سے افراد موجود تھے جو نازی سلیوٹ کر رہے تھے اور ’عرب مردہ باد‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ اس لیے ہم آگے نہیں جا سکے۔‘‘
دریں اثنا وفاقی تحقیق کاروں نے کہا کہ اتوار کی صبح مارے جانے والے چھاپوں کا تعلق دہشت گردی کے متعلق ایک وفاقی کیس سے ہے مگر انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ ان کا تعلق 22 مارچ کو ہونے والے حملوں سے ہے یا نہیں۔
اتوار کر برسلز اور ملک کے شمالی شہروں مشلڈن اور ڈفل میں 13 چھاپے مارے گئے۔ اب عدالت اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ تحویل میں لیے گئے چار افراد کو رہا کیا جائے یا تحویل میں رکھا جائے۔ چھاپوں کے دوران حراست میں لیے گئے دیگر پانچ افراد کو پوچھ گچھ کے بعد رہا کر دیا گیا۔
اتوار کو اٹلی اور ہالینڈ سے حملے کے مشتبہ منصوبہ سازوں کو گرفتار کیا گیا مگر ان کی سرگرمیوں کی تفصیلات فوراً فراہم نہیں کی گئیں۔