پاکستان میں پولیس حکام کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس 30 جنوری کو پشاور کے ایک پولیس کمپاؤنڈ کی مسجد میں ہونے والے خودکش بم حملے کے ایک اہم ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے جس کی شناخت ایک پولیس اہل کار کے طور پر ہوئی ہے۔ حملے میں 100 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
صوبائی پولیس سربراہ اختر حیات نے منگل کو صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں ایک طویل نیوز کانفرنس میں پولیس کانسٹیبل محمد ولی کی گرفتاری کا اعلان دیگر تفصیلات کے ساتھ کیا۔ انہوں نےکہا کہ خیبرپختونخوا پولیس اور محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے پشاور پولیس لائنز کی مسجد پر خودکش حملے کے مرکزی سہولت کار پولیس کانسٹیبل محمد ولی عرف عمر کو 2 خودکش جیکٹس سمیت گرفتار کرلیا ہے۔
انسپکٹر جنرل (آئی جی) خیبرپختونخوا پولیس اختر حیات نے ملزم کی گرفتاری کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ کالعدم جماعت "الاحرار" خودکش حملے میں ملوث پائی گئی۔
جنوری 2023 کے اخر میں پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں خود کش حملہ کیا گیا تھا جس میں 101 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں زیادہ تر پولیس اہلکار شامل تھے۔ مزید 250 زخمی بھی ہوئے تھے.جبکہ عمارت کو شدید نقصان پہنچا تھا۔
آئی جی نے حملے سے قبل اور بعد کے واقعات اپنی تفصیلی نیوز کانفرنس میں شئیر کیے ہیں پشاور پولیس کے اہل کار محمد ولی پر الزام ہے کہ انہوں نے مسجد پر حملہ کرنے والے خودکش بمبار کے ساتھ کمپاؤنڈ کا نقشہ شیئر کیا تھا۔
صوبائی پولیس سربراہ اختر حیات نے کہا کہ ولی نے کالعدم جماعت الاحرار میں شمولیت اختیار کی تھی، جو کہ پاکستانی طالبان کا الگ ہونے والا دھڑا ہے، جس نے اس حملے کی منصوبہ بندی کی تھی۔
ان کے مطابق ملزم محمد ولی ولد باز میر خان، پشاور کا رہائشی ہے اور 31 دسمبر 2019 کو پولیس میں بھرتی ہوا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ 2021 میں محمد ولی کا کالعدم جماعت الاحرار کے دہشت گرد جنید سے فیس بک پر رابطہ ہوا جس نے اس کی ذہن سازی کی، جس کے بعد ملزم نے جماعت الاحرار میں شمولیت کا ارادہ کیا۔
اختر حیات نے مزید کہا کہ یہ گرفتاری پیر کو ایک چھاپے میں عمل میں آئی، بقول انکے ولی نے حملے میں اپنے کردار کا اعتراف کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس کانسٹیبل محمد ولی کو 2 خودکش جیکٹس سمیت گرفتار کرلیا گیا ہے۔
پولیس نے گزشتہ سال دھماکے کی جگہ کی جو سی سی ٹی وی تصاویر جاری کی تھیں ان میں پولیس کی وردی میں ملبوس خودکش حملہ آور کو موٹرسائیکل کو دھکا دیتے ہوئے جائے وقوعہ کی طرف آتے ہوئے دکھایا گیا تھا، جس سے یہ تاثر ملتا تھا کہ وہ خراب ہو گیا ہے۔
حیات نے کہا کہ یہ الزام بھی ہے کہ حملہ آور کو وردی ولی نے فراہم کی تھی۔
پولیس لائن کے اندر مسجد پر حملہ حالیہ برسوں میں سکیورٹی فورسز پر ہونے والے مہلک ترین حملوں میں سے ایک تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ملزم محمد ولی پر دیگر وارداتوں میں ملوث ہونے کا الزام
آئی جی نے الزام عائد کیا کہ ملزم محمد ولی نے جنوری 2022 میں ایک پادری کو قتل کیا تھا، اس کے علاوہ اس نے ایسے افراد کو اسلحہ بھی فراہم کیا جنہوں نے اسے مختلف وارداتوں میں استعمال کیا۔ ان کی اس پریس کانفرنس پر کسی عسکریت پسند تنظیم کا ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
2023 میں پولیس لائین مسجد پر حملے پر ابتدائی ردعمل
ابتدا میں کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دو کمانڈرز نے اس حملے کی ذمے داری قبول کی تھی جب کہ مرکزی ترجمان نے اس دھماکے سے لاتعلقی ظاہر کی۔
ٹی ٹی پی مہمند شاخ کے دو اہم کمانڈرز سربکف مہمند اور عمر مکرم خراسانی نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ یہ حملہ ٹی ٹی پی کے اہم کمانڈر عمر خالد خراسانی (اصل نام عبدالولی) کی ہلاکت کا بدلہ ہے اور یہ خودکش حملہ مہمند سے ہی تعلق رکھنے والے 25 سالہ طالبِ علم حذیفہ نے کیا۔
پاکستان میں بعض عہدہ داروں نے حملے میں سہولت کاری کے لیے پڑوسی ملک افغانستان کی سرزمین استعمال ہونے کی جانب اشارہ کیا تھا۔
افغانستان کی طالبان حکومت نے پشاور خودکش حملے میں افغان سرزمین استعمال ہونے کے الزامات کو مسترد کیا تھا اور پاکستان پر زور دیا تھا کہ وہ کسی پر الزام تراشی سے قبل واقعے کی مکمل تحقیقات کر لے۔
طالبان حکومت کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے اس الزام پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئےکہا تھا کہ پاکستانی حکام کو اپنے سیکیورٹی چیلنجز کا خود حل تلاش کرنا چاہیے اور دو مسلم ملکوں کے درمیان نفرت کے بیج بونے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
اس وقت وی اے او اردو کی ایک تجزیاتی رپورٹ کے مطابق، بعض ماہرین کا خیال تھا کہ 100 سے زائد نمازیوں کی ہلاکت کے بعد عوامی سطح پر غم و غصہ پایا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ٹی ٹی پی اس حملے کی ذمے داری قبول کرنے سے کترا رہی ہے۔
بعض ماہرین کا خیال تھا کہ ٹی ٹی پی کے کچھ کمانڈرز کی جانب سے اس حملے کی ذمے داری قبول کرنے سے یہ تاثر سامنے آیا تھا کہ تنظیم قبائلی بنیادوں پر تقسیم ہو رہی ہے۔
SEE ALSO: پشاور دھماکہ: ٹی ٹی پی کا پہلے اقرار اور پھر انکار، حملہ آخر کیا کس نے؟یہ رپورٹ رائٹرز، اے پی اور میڈیا رپورٹس پر مبنی ہے۔