کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے پشاور خود کش حملے کی ذمے داری قبول کرنے کا معاملہ معما بن گیا ہے۔ تنظیم کے دو کمانڈرز نے اس حملے کی ذمے داری قبول کی ہے جب کہ مرکزی ترجمان نے اس دھماکے سے لاتعلقی ظاہر کی ہے۔
بعض ماہرین کا خیال ہے کہ 100 سے زائد نمازیوں کی ہلاکت کے بعد عوامی سطح پر غم و غصہ پایا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ٹی ٹی پی اس حملے کی ذمے داری قبول کرنے سے کترا رہی ہے۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ ٹی ٹی پی کے کچھ کمانڈرز کی جانب سے اس حملے کی ذمے داری قبول کرنے سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ تنظیم قبائلی بنیادوں پر تقسیم ہو رہی ہے۔
خیال رہے کہ ٹی ٹی پی مہمند شاخ کے دو اہم کمانڈرز سربکف مہمند اور عمر مکرم خراسانی کی جانب سے اس حملے کی ذمے داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔
دونوں کمانڈرز نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ یہ حملہ ٹی ٹی پی کے اہم کمانڈر عمر خالد خراسانی (اصل نام عبدالولی) کی ہلاکت کا بدلہ ہے اور یہ خودکش حملہ مہمند سے ہی تعلق رکھنے والے 25 سالہ طالبِ علم حذیفہ نے کیا۔
یاد رہے کہ ٹی ٹی پی کے بانیوں میں شمار ہونے والے عمر خالد خراسانی کا تعلق ضلع مہمند سے تھا اور آپریشن ضربِ عضب کے بعد سے وہ افغانستان میں ہی قیام پذیر تھے۔ گزشتہ سال اگست میں وہ افغانستان کے شہر پکتیکا میں ایک پراسرار بارودی بم دھماکے میں ہلاک ہو گئے تھے۔
سربکف مہمند کو ٹی ٹی پی کے مرکزی امیر اوررہبری شوریٰ نے 30 دسمبر کو نئی تنظیمی تقرریوں میں بلوچستان کے علاقے ژوب ڈویژن کا کمانڈر یا نام نہاد گورنرنامزد کیا جب کہ عمر مکرم خراسانی ٹی ٹی پی کی مرکزی شوریٰ کے رکن ہیں۔
ٹی ٹی پی کے ان کمانڈرز کے بیانات کے کچھ گھنٹے بعد افغانستان میں طالبان حکومت کی وزارتِ خارجہ نے ایک اعلامیے میں پشاور دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے اسے اسلامی تعلیمات کے منافی قرار دیا تھا۔
حملے کے لگ بھگ آٹھ گھنٹے بعد ٹی ٹی پی کے مرکزی ترجمان محمد خراسانی نے ایک وضاحتی بیان میں اس حملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا۔
اُن کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی مساجد، مدارس، جنازگاہ اور دیگر مقدس مقامات پر حملے نہیں کرتی۔
مسجد پر حملے کے باعث عوامی ردِعمل کا خوف؟
قانون نافذ کرنے والے افسران اور سیکیورٹی ماہرین کا ایک حلقہ یہ سمجھتا ہے کہ ٹی ٹی پی مہمند کے کمانڈرز کی جانب سے ذمے داری قبول کرنے کے بعد مرکزی تنظیم کا اظہارِ لاتعلقی ظاہر کرتا ہے کہ وہ اس بڑے پیمانے پر ہونے والی جانوں کے ضیاع کے بعد عوامی ردِعمل سے بچنا چاہتی ہے۔
نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) کے سابق کوآرڈینیٹر اور سابق آئی جی خیبرپختونخوا احسان غنی کہتے ہیں کہ ٹی ٹی پی کی جانب سے حملے کی ذمے داری قبول نہ کرنا ان کی حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے احسان غنی کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ یہ حملہ تنظیم کی مرکزی قیادت کی مرضی سے نہیں ہوا۔
اُن کے بقول ٹی ٹی پی خیبرپختونخوا اور قبائلی اضلاع کے مختلف علاقوں میں سرگرم شدت پسند تنظیموں کا اتحاد ہے اور یہ افغان طالبان کی طرح ایک منظم تنظیم نہیں ہے۔
شدت پسند کے موضوعات پر رپورٹنگ کرنے والے صحافی سید فخر کاکا خیل کہتے ہیں کہ سانحہ آرمی پبلک اسکول کے دوران بھی اس طرح کی صورتِ حال پیدا ہوئی تھی۔
اُن کے بقول اس حملے کے بعد تنظیم کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان نے عوامی ردِعمل کے خوف سے اس حملے سے اظہارِ لاتعلقی کیا تھا۔
لیکن تنظیم کے اس وقت کے ترجمان محمد خراسانی کی جانب سے ذمے داری قبول کرنے کے بعد سربراہ ملا فضل اللہ اور ایک غیر معروف رہنما خلیفہ عمر منصور عرف عمر نارے نے ایک ویڈیو بیان میں بھی اس حملے کی ذمے داری قبول کی تھی۔
خیال رہے کہ احسان اللہ احسان اس وقت ٹی ٹی پی سے ناراض گروہ جماعت الاحرار میں شام ہوگئے تھے۔
فخر کاکاخیل کہتے ہیں کہ ملا فضل اللہ کی ہلاکت کے بعد جب مفتی نور ولی نے ٹی ٹی پی کی امارت سنبھالی تو انہوں نے تنظیمی کمانڈروں کو سختی سے عوامی مقامات , خصوصاً مساجد میں حملے کرنے سے روک دیا تھا۔
ٹی ٹی پی کی جانب سے شائع کردہ 'لائحہ عمل' نامی کتابچے میں خود کش حملوں کے بارے میں کمانڈرز کو ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ اس کے تحت کمانڈرز کو مساجد، جنازوں، عید گاہوں اور بازاروں میں حملے نہ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ غفلت برتنے والوں کو سزا دینے کی بھی تنبیہ کی گئی ہے۔
فخر کاکا خیل کہتے ہیں کہ مسجد پر خود کش حملے سے نہ صرف نور ولی محسود کی ان کوششوں کو نقصان پہنچا ہے بلکہ مرکزی امیر کی حیثیت سے ان کے فیصلوں کو بھی چیلنج کیا گیا ہے۔
کیا ٹی ٹی پی دوبارہ قبائلی بنیادوں پرتقسیم ہو رہی ہے؟
ماہرین کے مطابق ٹی ٹی پی کے مرکزی امیر مفتی نورولی محسود نے گزشتہ تین سالوں کے دوران ٹی ٹی پی کے ناراض گروپوں کو دوبارہ تنظیم میں شامل کر نے کا عمل کا آغاز کیا تھا۔ اس کے تحت تنظیم کو حلقوں کے بجائے یونٹوں کی طرز پرفعال کر کے روایتی قبائلی ڈھانچے سے نکال کر شہری ڈھانچے میں تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
سیکیورٹی اُمور کے ماہرین کہتے ہیں کہ ٹی ٹی پی مہمند کی جانب سے پشاور حملے کی ذمے داری قبول کرنے سے اس تاثر کو تقویت مل رہی ہے کہ تنظیم کی بعض شاخیں مرکزی تنظیم کے بجائے قبائلی بنیادوں پر اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ٹی ٹی پی کی از سرنو تنظیم سازی میں مختلف تحریروں میں اس بات پرزور دیا گیاہے کہ ماضی کی طرح قبائل کی سطح پرتشکیل کردہ حلقوں (جیسے حلقہ محسود، حلقہ مہمند) کے بجائے اب تنظیمی ڈھانچے کو پلاٹون یا یونٹس کی سطح پرفعال کیا گیا ہے۔
ٹی ٹی پی کی ایک اندرونی تنظیمی تحریرمیں کہا گیاہے کہ "حلقہ نظام کی وجہ سے ہمیشہ تحریک ٹوٹنے کے خطرات سے دوچار تھی۔ اگر ایک حلقہ ناراض ہوتا تو اس کی وجہ سے تحریک ٹوٹ جاتی تھی۔"
تحریر میں مزید لکھا گیاہے کہ "ٗحلقے کی سطح پرکارروائیوں کا تناسب کم تھا کیوں کہ مجاہدین ہزاروں کی تعداد میں ہونے کے باوجود سارا حلقہ ایک کارروائی کرکے اپنے دل کوتسلی دیتا تھا جب کہ یونٹ یا پلاٹون نظام میں ہر بندہ کوشش کرے گا کہ کارروائیاں زیادہ سے زیادہ کرے۔"
حاصل کردہ معلومات کے مطابق تنظیم کو فی الحال ملکی سطح پر نو ڈویژنز میں تقسیم کیا گیاہے جسے تنظیمی طور پر افغانستان کی طرز پر صوبے یا ولایت کا نام دیا گیاہے۔
فخرکاکاخیل کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی کی جانب سے نئی تنظیم سازی میں قبائلی بنیادوں کے بجائے تنظیمی بنیادوں پرمختلف علاقوں کے ذمے دار بنائے گئے ہیں تاکہ تنظیم میں قبائلی بنیادوں پر اختلافات پیدا نہ ہوں۔
اُن کے بقول "ٹی ٹی پی مہمند کے کمانڈروں کا حالیہ پشاور حملے کی ذمے داری قبول کرنے اور مرکزی تنظیم کی لاتعلقی سے یوں لگ رہا ہے کہ تنظیم میں قبائلی بنیادوں پراختلافات دوبارہ پیدا ہوچکے ہیں۔"
پشاور یونیورسٹی میں شعبہ ابلاغِ عامہ کے پروفیسر ڈاکٹر سید عرفان اشرف کا کہنا ہے عوام کے خوف کے باعث شدت پسند تنظیمیں اب ذمے داری لینے سے پیچھے ہٹ گئی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہ اس لیے پیچھے نہیں ہٹیں کہ بڑے پیمانے پر پولیس اہل کار ہلاک ہوئے ہیں۔ پولیس تو گزشتہ نو ماہ سے ان کے نشانے پر ہے بلکہ مسجد کو نشانہ بنائے جانے کی وجہ سے وہ یہ نہیں چاہتے کہ عوام میں ان کے خلاف منفی تاثر پھیلے۔
سید عرفان اشرف کے مطابق پولیس لائنز کے اندر سول سیکریٹریٹ، سی ٹی ڈی، ایلیٹ فورس، سپیشل سروس یونٹ، پشاور پولیس اور مختلف اداروں کے افسران کے دفاتر موجود ہیں۔ اس لیے اس میں کوئی ابہام نہیں ہے کہ نشانہ مسجد ہی تھی۔
پروفیسر عرفان اشرف کے مطابق پشاور دھماکے سے پولیس کے ساتھ ساتھ عوام کا مورال بھی بہت ڈاؤن ہوا ہے کیوں کہ پولیس ہی عوام کی حفاظت کرتی ہے۔
سابق سیکریٹری داخلہ سید اختر علی شاہ پشاور دھماکے کو بڑا سیکیورٹی لیپس قرار دیتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کا مسئلہ صوبائی نہیں بلکہ وفاقی سطح پر ڈسکس ہونا چاہیے۔ حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ دہشت گردی کے حوالے سے از سرنو غیر مبہم پالیسی کا تعین کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ افغان پالیسی کا بھی ازسرہ نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
عمرخالد خراسانی کی ہلاکت
فخرکاکا خیل کا کہناہے کہ افغان طالبان کی سرپرستی میں پاکستانی حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات سے ہی ٹی ٹی پی میں اختلافات شروع ہوئے جو مذاکرات کے دوران ہی ٹی ٹی پی کے رہنما عمر خالد خراسانی کی افغانستان میں ہلاکت کے بعد شدت اختیار کرگئے۔
ٹی ٹی پی کی جانب سے منگل کو جاری کردہ "طالبان" مجلے میں ٹی ٹی پی کے مرکزی شوری کے رکن عمر خراسانی سے پوچھا گیا کہ عمرخالد خراسانی کی ہلاکت کے انتقام کے سلسلے میں جاری کاروائیاں کب تک جاری رہے گی؟ اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ان کی ہلاکت کا انتقام ان پرفرض ہے جس کے لیے کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔
خیال رہے کہ عمر خالد خراسانی کی ہلاکت کا بدلہ لینے کی کارروائیوں کے سلسلے میں پیر کو ہونے والا پشاورمسجد حملہ چوتھا خودکش حملہ تھا۔ اس سے قبل اسی سلسلے میں نومبر، دسمبر اورجنوری میں کوئٹہ، اسلام آباد اورخیبر میں خودکش حملے کیے گئے۔
فخر کاکا خیل کاکہناہے کہ پاکستانی حکومت سے مذاکرات کے معاملے پرٹی ٹی پی تقسیم نظر آ رہی تھی۔
ان کا کہناہے کہ "ایک حلقے کا کہنا تھا کہ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد اب افغانستان میں جہاد کا جواز نہیں بچتا لہذٰا ٹی ٹی پی کو افغان طالبان کی طرح مذاکرات کا راستہ اپنا کر پاکستان میں شریعت کے نفاذ کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔
اُن کے بقول ٹی ٹی پی کے کچھ کمانڈرز بشمول عمر خالد خراسانی مذاکراتی عمل کے خلاف تھے اور ریاستِ پاکستان کے خلاف 'جہاد' جاری رکھنے کے حامی تھے۔
ٖفخر کاکا خیل کے مطابق ٹی ٹی پی میں مہمند، باجوڑ اور دیگر شاخوں کے رہنما مرکزی قیادت پر دباؤ ڈال رہے تھے کہ عمر خالد خراسانی کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے انتقامی کارروائیاں شروع کی جائیں۔ لیکن مرکزی قیادت بڑے حملوں کے بجائے مذاکراتی عمل جاری رکھنے کے حق میں تھی۔
پچھلے سال جون میں مذاکرات کے نتیجے میں ٹی ٹی پی اورپاکستانی حکومت کے مابین جنگ بندی کا اعلان غیر معینہ مدت تک کے لیے کیا گیا تھا۔ اس اعلان کے بعد چند ماہ تو پُرامن رہے لیکن پھر اگست میں عمر خالد خراسانی کی ہلاکت کے بعد ایک مرتبہ پھر غیر اعلانیہ حملے شروع ہوئے۔
فخر کاکا خیل کا کہناہے کہ "عمرخالد خراسانی کی ہلاکت کے دوران جنگ بندی کے اعلان کے باوجود سیکیورٹی فورسز اور پولیس اہلکاروں کے ساتھ ساتھ عام شہریوں کونشانہ بنایا جارہا تھا جس سے یہ اندازہ ہورہا تھا کہ مذاکرات مخالف ٹی ٹی پی دھڑے یہ کارروائیاں کر رہے ہیں۔"
خیال رہے کہ ٹی ٹی پی مہمند شاخ 2014 میں تنظیم کی مرکزی قیادت سے ناراض ہوکر 'جماعت احرار' کے نام سے علیحدہ تنظیم بناکراپنی شدت پسند سرگرمیاں جاری رکھے ہوئی تھی۔ یہ تنظیم کچھ عرصے تک داعش کی افغانستان اور پاکستان شاخ 'داعش خراسان' کے ساتھ بھی وابستہ رہی۔
جماعت احرار میں ٹی ٹی پی کے موجودہ مرکزی شوری کے رکن عمر خراسانی اور ٹی ٹی پی کے سابق مرکزی ترجمان احسان اللہ احسان جیسے اہم رہنماؤں سمیت ٹی ٹی پی مہمند کی تمام قیادت شامل ہوئی تھی۔
البتہ ٹی ٹی پی کے موجودہ مرکزی امیر مفتی نورولی محسود کی کوششوں کی سبب جماعت احرار 2020 میں ٹی ٹی پی میں دوبارہ ضم ہو گئی تھی۔
سید اختر علی شاہ کے مطابق گزشتہ چالیس سال سے جس جہادی مائنڈ سیٹ نے اس خطے میں فروغ پایا ہے اس کو جڑوں سے ختم کرنا ہو گا اور پاکستان کو یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ اس قسم کی کارروائیاں وسطی ایشیا، ملائیشیا اور انڈونیشیا سمیت دیگر اسلامی ممالک میں کیوں نہیں ہوتیں؟