وزیرِ اعلٰی پنجاب حمزہ شہباز کا شیریں مزاری کی رہائی کا حکم

وزیرِ اعلٰی پنجاب حمزہ شہباز شریف نے تحریکِ انصاف کی رہنما ڈاکٹر شیریں مزاری کی گرفتاری کا نوٹس لیتے ہوئے اُنہیں فوری طور پر رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی شیریں مزاری کی بیٹی کی درخواست پر نوٹس لیتے ہوئے اُنہیں ہفتے کی شب ساڑھے گیارہ بجے عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔

عدالتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ جب ایک بات طے ہے کہ کسی بھی رُکنِ اسمبلی کو اسپیکر کی اجازت کے بغیر گرفتار نہیں کیا جا سکتا تو پھر اُنہیں کیوں حراست میں لیا گیا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ رُکن قومی اسمبلی کی نشست سے استعفے کے باوجود تاحال شیریں مزاری کو بطور ایم این اے ڈی نوٹیفائی نہیں کیا گیا، لہذٰا وہ اب بھی رُکن قومی اسمبلی ہیں۔

ادھر ترجمان وزیرِ اعلٰی کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیرِ اعلٰی نے شیریں مزاری کو گرفتار کرنے پر اینٹی کرپشن پنجاب کے افسران کے خلاف تحقیقات کا حکم بھی دیا ہے۔

وزیرِ اعلٰی پنجاب کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) بطور سیاسی جماعت خواتین کے احترام پر یقین رکھتی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ راولپنڈی پولیس کو ہدایت کی ہے کہ شیریں مزاری کو اینٹی کرپشن کی تحویل سے چھڑا کر رہا کیا جائے۔

اسلام آباد پولیس نے تحریکِ انصاف کی رہنما ڈاکٹر شیریں مزاری کو ہفتے کی دوپہر اسلام آباد سے گرفتار کر لیا تھا۔ سابق وفاقی وزیر کی بیٹی ایمان مزاری نے والدہ کی گرفتاری کی تصدیق کی تھی۔

اسلام آباد پولیس کے مطابق ڈاکٹر شیریں مزاری کے خلاف ڈیرہ غازی خان میں سرکاری اراضی پر قبضے کا الزام ہے اور اینٹی کرپشن پنجاب اس معاملے کی تحقیقات کر رہا ہے۔

سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر شیریں مزاری کو خواتین پولیس اہل کار گاڑی سے نکالنے کی کوشش کر رہی ہیں، تاہم وہ مزاحمت کر رہی ہیں۔ بعدازاں خواتین پولیس اہلکار زبردستی اُنہیں اپنے ساتھ لے جاتی ہیں۔

سابق وفاقی وزیر انسانی حقوق کو اسلام آباد میں اُن کی رہائش گاہ کے باہر سے حراست میں لیا گیا۔

تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے شیریں مزاری کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ فاشسٹ حکومت نے شیریں مزاری کو اُن کے گھر سے اغوا کیا۔

عمران خان نے ٹوئٹ کی کہ شیریں مزاری بہادر خاتون ہیں، وہ اس طرح کے ہتھکنڈوں سے نہیں ڈریں گی۔

سابق وزیرِ اعظم نے یہ بھی اعلان کیا کہ کل وہ اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کی کال دیں گے۔

تحریکِ انصاف نے شیریں مزاری کو حراست میں لیے جانے پر ہفتے کو ملک گیر احتجاج کی بھی کال دے دی ہے جب کہ اُن کی گرفتاری کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست بھی دائر کر دی ہے۔

مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے تحریکِ انصاف کے رہنما فواد چوہدری اور فرخ حبیب نے الزام لگایا کہ شیریں مزاری کو گرفتاری سے قبل زدوکوب بھی کیا گیا۔

اُن کا کہنا تھا کہ اگر شیریں مزاری کے خلاف کوئی مقدمہ تھا تو وہ ہائی لائٹ کیوں نہیں ہوا۔ اُنہیں صرف سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا کیوں کہ وہ موجودہ حکومت پر کھل کر تنقید کرتی تھیں۔

شیریں مزاری کی صاحبزادی اور انسانی حقوق کی کارکن ایمان زینب مزاری نے الزام لگایا ہے کہ اُن کی والدہ کو اغوا کیا گیا۔ لہذٰا وہ موجودہ حکومت کا پیچھا کریں گی۔

اسلام آباد پولیس نے ڈاکٹر شیریں مزاری کی گرفتاری سے متعلق بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ اُنہیں اینٹی کرپشن ڈپارٹمنٹ کی درخواست پر خواتین پولیس اہلکاروں کی مدد سے گرفتار کیا گیا۔ لہذٰا اُنہیں زدوکوب کرنے کے الزامات میں کوئی صداقت نہیں ہے۔

سابق وفاقی وزیر شیخ رشید احمد نے مقامی نیوز چینل 'جیو' سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شیریں مزاری کی گرفتاری ابتدا ہے۔ یہ لوگ عمران خان کو بھی گرفتار کرنا چاہتے ہیں جس سے ملک میں افراتفری اور انارکی پھیلے گی۔

مسلم لیگ (ن) کا مؤقف

مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے ڈاکٹر شیریں مزاری کی گرفتاری پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا اُن کے خلاف مقدمہ بزدار حکومت میں بنایا گیا۔

لاہور میں مسلم لیگ (ن) کی سوشل میڈیا ٹیم سے خطاب کرتے ہوئے مریم نواز کا کہنا تھا کہ اُنہیں شیریں مزاری کی گرفتاری کا سن کر خوشی نہیں ہوئی، تاہم تحریکِ انصاف کو عورت کارڈ کھیلنے سے گریز کرنا چاہیے۔

مریم نواز کا کہنا تھا کہ اگر اینٹی کرپشن نے شیریں مزاری کو گرفتار کیا ہے تو کوئی تو وجہ ہو گی، اُنہیں کیس کا سامنا کرنا چاہیے اور اگر مقدمہ جھوٹا ثابت ہوا تو وہ خود شیریں مزاری کے ساتھ کھڑی ہوں گی۔

مریم نواز کا کہنا تھا کہ وہ بھی کسی کی بہن بیٹی تھیں۔ اُنہیں ڈیتھ سیل میں رکھا گیا، تاہم اُنہوں نے کبھی عورت کارڈ نہیں کھیلا۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما ملک احمد خان نے ڈاکٹر شیریں مزاری کی گرفتاری پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ شیریں مزاری کے خاندان نے غریب کسانوں کی سینکڑوں کنال اراضی پر قبضہ کیا۔

ملک احمد خان کا کہنا تھا کہ شیریں مزاری کی گرفتاری سے حکومت کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

لاہور میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے ملک احمد خان کا کہنا تھا کہ یہ مقدمہ مارچ میں درج ہوا تھا اور اس وقت مسلم لیگ (ن) کی حکومت نہیں تھی۔

سوشل میڈیا پر ردِعمل

ڈاکٹر شیریں مزاری کی گرفتاری کا معاملہ ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ ہے اور مختلف سیاسی رہنما اور تجزیہ کار اس معاملے پر اظہارِ خیال کر رہے ہیں۔

تحریکِ انصاف کے رہنما ڈاکٹر شفقت محمود نے بھی ڈاکٹر شیریں مزاری کی گرفتاری کی مذمت کی ہے۔

ایک ٹوئٹ میں اُن کا کہنا تھا کہ لاہور میں آج تحریکِ انصاف کے کارکن احتجاج کریں گے۔

تحریکِ انصاف کی رہنما زرتاج گل وزیر نے ٹوئٹ میں الزام لگایا کہ موجودہ حکومت غیر قانونی ہتھکنڈوں کے ذریعے آئین کی خلاف ورزی کی مرتکب ہو رہی ہے۔

سینئر تجزیہ کار طلعت حسین نے ٹوئٹ میں دعویٰ کیا کہ اُن کی پنجاب اور مرکز میں حکام سے بات ہوئی ہے، وہ شیریں مزاری کی گرفتاری سے لاتعلقی کا اظہار کر رہے ہیں۔ وہ یہ پتا چلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ کس نے کیا ہے۔

سینئر تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت میں ڈاکٹر شیریں مزاری پہلی سیاسی قیدی ہیں۔

اپنی ٹوئٹ میں مظہر عباس کا کہنا تھا کہ سیاسی قیادت اور حکومتیں ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کو تیار نہیں۔

خیال رہے کہ سابق وفاقی وزیر عمران خان حکومت کے جانے کے بعد ٹوئٹر پر خاصی سرگرم رہی ہیں۔ وہ موجودہ حکومت کے علاوہ ریاستی اداروں کو بھی تنقید کا نشانہ بناتی رہی ہیں۔

شیریں مزاری کے خلاف کیس کیا ہے؟

شیریں مزاری کو جس کیس میں گرفتار کیا گیا اس کی تفصیل کے مطابق یہ معاملہ 1972 میں شروع ہوتا ہے جب اس وقت کے وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو نےلینڈ ریفارمز شروع کیں اور بڑے زمینداروں سےزمینیں لے کر غریب کسانوں میں تقسیم کیں۔

بتایا جاتا ہے کہ سینکڑوں ایکڑ زمین مختلف ناموں سے رکھی گئی ۔ اینٹی کرپشن پنجاب اس حوالے سے تحقیقات کر رہی تھی اور رواں سال اپریل میں اس سلسلہ میں شیریں مزاری پر 800 کنال اراضی بوگس دستاویزات کے ذریعے منتقل کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ شیریں مزاری کے خلاف مقدمہ بھی درج کیا گیا۔

اس کیس میں ہفتہ کو اُن کی گرفتاری کے لیے ڈیرہ غازی خان سے ایک ٹیم اسلام آباد پہنچی جنہوں نے اسلام آباد کے تھانہ کوہسار میں شیریں مزاری کی گرفتاری کے لیے دستاویزات اور ایف آئی آر پیش کیں اور مقامی پولیس کی مدد طلب کی۔

شیریں مزاری کون ہیں؟

شیریں مزاری بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں پیدا ہوئیں ۔ ان کے والد سردار عاشق مزاری ایک معروف وکیل اور پنجاب کے آخری ضلع راجن پور کی تحصیل روجھان کے بڑے زمیندار تھے۔

شیریں مزاری اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں جنہوں نے لندن اسکول آف اکنامکس سے تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد یونیورسٹی آف کولمبیا سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی پھر انہوں نے ایسوسی ایٹ پروفیسر کے طور پر قائداعظم یونیورسٹی کو جوائن کیا ۔

شیریں مزاری کئی برس تک قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں ڈیفنس اینڈ اسٹریٹجک اسٹڈیز میں پڑھاتی رہیں۔ معروف گلوکار ابرارالحق سمیت کئی اہم عہدوں پر تعینات شخصیات ان کے شاگردوں میں شامل ہیں۔


ڈاکٹر شیریں مزاری اسلام آباد سے شائع ہونے والے اخبار دی نیشن کی ایڈیٹر بھی رہیں۔

قائدِاعظم یونیورسٹی میں ان کے کولیگ رہنے والے پروفیسر ڈاکٹر رفعت حسین نے ان کی بطور استاد شخصیت کے حوالے سے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ شیریں مزاری ایک بہترین استاد تھیں اور اپنے سیاسی نظریات کی وجہ سے اپنے شاگردوں میں بہت مقبول ہوا کرتی تھیں۔

شیریں مزاری بطور سیاست دان

قائد اعظم یونیورسٹی میں کئی برس پڑھانے کے بعد شیریں مزاری عملی سیاست میں آئیں اور 2008 میں انہوں نے پاکستان تحریکِ انصاف کو جوائن کیا اورپی ٹی آئی کی سیکریٹری اطلاعات اور ترجمان رہیں۔

سن 2012 میں جب وہ مرکزی نائب صدر اور انچارج خارجہ پالیسی تھیں تو انہوں نے پی ٹی آئی سے استعفیٰ دے دیا۔لیکن 2013 میں وہ دوبارہ پی ٹی آئی کا حصہ بن گئیں۔

سن 2013 کے عام انتخابات میں وہ پہلی بار پنجاب سے خواتین کے لیے مخصوص نشست پر پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔

اگست 2018 میں عمران خان نے اپنی وفاقی کابینہ کا باضابطہ اعلان کیا اور شیریں مزاری کو وزیرِ انسانی حقوق مقرر کیا گیا۔