دنیا بھر میں پولیو سے بچاؤ کے لیے بچوں کو ویکسین کے دو قطرے پلائے جاتے ہیں۔ ویکسین کا یہ کورس چار مرحلوں میں مکمل ہوتا ہے۔ پولیو ویکسین اب تک انتہائی مؤثر رہی ہے اور اس سے دنیا بھر میں ماسوائے پاکستان، افغانستان اور موزمبیق کے، وائرس سے پھیلنے والی اس وبا کے خاتمے میں مدد ملی ہے۔
لیکن اب امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل میں پولیو وائرس کی موجودگی کے شواہد ملنے کی اطلاعات ہیں۔ یہ وہ ممالک ہیں جہاں برسوں پہلے پولیو کے خاتمے کا اعلان کردیا گیا تھا۔
اسرائیل میں پولیو کا نشانہ بننے والا ایک تین سالہ بچہ معذور ہو گیا ہے۔ تاہم اس بچے نے پولیو کی ویکسین نہیں لی تھی۔ اسی طرح کچھ اور بچوں میں بھی وائرس کی نشاندہی ہوئی ہے البتہ ان میں مرض کی علامات نہیں تھیں۔ان بچوں کو بھی ویکسین نہیں دی گئی تھی۔
برطانیہ میں حکام نے بتایا ہے کہ سیوریج کے پانی میں پولیو وائرس پایا گیا ہے، جس کے بعد ایک سے نو سال کی عمر تک کے بچوں کو ویکسین کا بوسٹر دیا جا رہا ہے۔
امریکہ کے شہر نیویارک کے سیوریج میں بھی پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے، تاہم حکام کا کہنا ہے کہ وائرس سے بچاؤ کے لیے پہلے ہی انہوں نے کافی انتظامات کرلیے ہیں، جن میں مزید اضافے کی ضرورت نہیں ہے۔
عالمی ادارۂ صحت کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2017 سے اب تک جن بچوں میں پولیو وائرس کی موجود پایا گیا، ان میں سے 396 بچوں میں اس کا سبب وہ پولیو وائرس تھا، جو قدرتی حالت میں پایا جاتا ہے، جب کہ 2600 سے زیادہ بچوں میں اس وائرس کا تعلق پلائے جانے والی پولیو ویکسین سے بتایا جاتا ہے۔
پولیو سے بچاؤ کی ویکسین سے پولیو وائرس میں مبتلا ہونا ماہرین کے نزدیک کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ویکسین کے قطروں کا استعمال 1988 سے ہو رہا ہے اور یہ بہت مؤثر ثابت ہوئے ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں بچوں کو ویکسین کے قطرے دیے جاتے ہیں۔
قطروں والی ویکسین کی تیاری پر بہت کم لاگت آتی ہے اور اس کا استعمال بھی انتہائی آسان ہے۔ مگر اس کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ اگر 20 لاکھ بچوں کو یہ ویکسین دی جائے تو ان میں سے دو سے چار تک بچوں کا پولیو میں مبتلا ہو نے اور اس وائرس کو دوسروں تک پھیلانے کا خدشہ موجود ہوتا ہے۔
ماہرین اس کا سبب یہ بتاتے ہیں کہ قطروں کی شکل میں دی جانے والی ویکسین، زندہ مگر کمزور وائرس سے تیار کی جاتی ہے۔
کمزور وائرس جب انسانی جسم کے اندر پہنچتا ہے تو قدرتی مدافعتی نظام اس کے خلاف فعال ہو جاتا ہے۔ مگر انتہائی کم صورتوں میں بعض بچوں کا مدافعتی نظام اتنا کمزور ہوتا ہے کہ وہ ویکسین میں موجود کمزور ترین وائرس کے سامنے بھی بے بس ہو جاتا ہے اور وائرس اس پر حاوی ہو جاتا ہے۔ بعض صورتوں میں وائرس اپنی جینیاتی ہیئت بدل کر مزید خطرناک اور زیادہ تیزی سے پھیلنے کی قابل ہوجاتا ہے۔
پولیو وائرس کے بارے میں یاد رہے کہ یہ انسانی فضلے میں پایا جاتا ہے اور سیوریج کے پانی کے ذریعے پھیلتا ہے۔
SEE ALSO: امریکہ میں تقریباً ایک دہائی بعد پولیو کا کیس رپورٹامریکہ، برطانیہ اور اسرائیل میں پولیو وائرس کے پھیلاؤ پر ہونے والی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ اس کا ماخذ قطروں کی صورت میں دی جانے والی ویکسین میں موجود کمزور وائرس ہے، جو اپنی ہیئت تبدیل کر کے خطرے کا باعث بن رہا ہے۔
سائنس دانوں کے مطابق ہوتا یوں ہے کہ ہم ویکسین کے ذریعے پولیو کا زندہ مگر کمزور وائرس انسانی جسم میں داخل کر دیتے ہیں۔ وہ زندہ حالت میں فضلے کے ذریعے خارج ہو کر سیوریج کے پانی میں شامل ہو جاتا ہے اور پھر اپنی جینیاتی ہیئت بدل کر وبا پھیلانے کا سبب بنتا ہے۔
پولیو کی روک تھام سے متعلق کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر اسکاٹ بیرٹ کہتے ہیں کہ ہم بنیادی طور پر قدرتی وائرس سے ویکسین بنا کر اسے ایک ایسے وائرس میں ڈھال رہے ہیں جو تیزی سے پھیلنے کی اہلیت رکھتا ہے۔
عالمی ادارۂ صحت کے پولیو پر کنٹرول کے شعبے کے ڈائریکٹر ایڈن اولیری کہتے ہیں کہ لندن اور نیویارک میں پولیو کے پھیلاؤ کی خبریں ہمارے لیے انتہائی حیران کن ہیں، کیوں کہ ہماری توجہ پاکستان اور افغانستان پر مرکوز ہےجہاں صحت کے کارکنوں کو محض اس لیے قتل کر دیا جاتا ہے کہ وہ بچوں کو پولیو سے بچاؤ کی ویکسین کیوں پلا رہے ہیں۔وہاں کئی علاقوں میں تو ویکسین پلانا ناممکن ہو چکا ہے۔
ایڈن اولیری کہتے ہیں کہ قطروں کی شکل میں دی جانے والی پولیو سے بچاؤ کی ویکسین کی فعالیت مسلمہ ہے۔ سن 1988 میں، جب اس ویکسین کا استعمال شروع ہوا تھا تو ہر سال ساڑھے تین لاکھ سے زیادہ بچے اس وبا کا شکار بن جاتے تھے۔
ان کے مطابق قدرتی طور پر پائے جانے والے وائرس سے متاثر ہونے والے کیسز کی سالانہ تعداد اب گھٹ کر محض 19 رہ گئی ہے اور ان کیسز کا تعلق دنیا کے صرف تین ممالک پاکستان، افغانستان اور موزمبیق سے ہے ۔
Your browser doesn’t support HTML5
سن 2020 میں ویکسین سے منسلک پولیو کے کیسز اپنی بلند ترین سطح پر تھے۔ یہ تعداد 11 سو سے زیادہ تھی اور یہ کیسز درجنوں ممالک سے رپورٹ ہوئے۔تاہم اس سال یہ تعداد گھٹ کر 200 کے لگ بھگ رہ گئی ہے۔
سائنس دان اور طبی ماہرین اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ گزشتہ برس اقوامِ متحدہ اور اس کے شراکت داروں نے ایک نئی ویکسین متعارف کرائی تھی۔ اس ویکسین کے بھی اگرچہ دو قطرے منہ میں ٹپکائے جاتے ہیں، مگر سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس کی تیاری میں زیادہ کمزور زندہ وائرس کا استعمال کیا گیا ہے۔
سائنس دان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ یہ وائرس پھیلنے یا اپنی جینیاتی ہیئت تبدیل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔
ماہرین کے مطابق اس کا استعمال محفوظ ہے۔ مگر نئی ویکسین کی فراہمی انتہائی محدود ہے۔اور زیادہ تر ممالک کو آئندہ بھی ایک عرصے تک پرانے فارمولے کے تحت بنائی گئی ویکسین پر نہ صرف انحصار کرنا پڑے گا بلکہ وائرس کے پھیلاؤ کے خطرے کے مقابلے کے لیے بھی تیار رہنا ہو گا۔
اس رپورٹ کے لیے کچھ مواد خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لیا گیا ہے۔