|
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم ہونے کے بعد کئی نئی سیاسی جماعتوں کی تشکیل ہوئی ہے جو اس فیصلے کے پانچ برس بعد ہونے والے ریاستی الیکشن میں بظاہر اپنی حمایت کھو رہی ہیں۔ مبصرین کے نزدیک اس کی وجہ ان جماعتوں کے مرکزی حکومت سے تعلقات ہیں۔
اسی رجحان کو دیکھتے ہوئے سابق رکن اسمبلی نور محمد شیخ نے حال ہی میں ’جموں و کشمیر اپنی پارٹی‘ یا جے کے اے پی سے استعفی دیا ہے جس میں انہوں نے چند برس قبل شمولیت اختیار کی تھی۔
کاروبار سے سیاست کی جانب آنے والے سید محمد الطاف بخاری نے 2020 میں 'جے کے اے پی' کی بنیاد رکھی تھی جس میں شمالی کشمیر کے ایک کہنہ مشق سیاست دان غلام حسن میر بھی ان کے ساتھ تھے۔
اس پارٹی کے قیام کا مقصد اگست 2019 میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے کے بعد مقامی آبادی اور نئی دہلی میں رابطہ قائم کرنا تھا۔
الطاف بخاری اور حسن میر نئی پارٹی کا نمایاں آغاز کرنے کے لیے نور محمد شیخ سمیت بھارت نواز جماعتوں کے 50 سے زائد سیاست دان جے کے اے پی میں لانے میں کامیاب رہے تھے۔
توقع کی جا رہی تھی کہ یہ جماعت خطے کی دو مرکزی جماعتوں نیشنل کانفرنس (این سی) اور پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے لیے سیاسی منظرنامے پر چیلنج بن کر ابھرے گی۔
نور محمد شیخ نے وی او اے کو بتایا کہ ’’سید محمد الطاف بخاری نے اس وقت بھارتی حکومت سے رابطے کیے جب وادیٔ کشمیر میں مکمل خاموشی تھی۔ میں اس جماعت میں اس لیے شامل ہوا تھا کہ اپنے لوگوں کی نمائندگی کر سکوں جب کوئی ایسا نہیں کر رہا تھا۔‘‘
تاہم 'جے کے اے پی' کو رواں سال ہونے والے بھارت کے عام انتخابات میں مایوس کُن کارکردگی کی وجہ سے شدید دھچکا لگا ہے۔
کشمیر کو وفاق کے زیرِ انتظام علاقہ قرار دینے کے بعد 18 ستمبر کو یہاں ریاستی الیکشن ہو رہے ہیں اور 'جے کے اے پی' بکھرنا شروع ہو گئی ہے۔ جماعت کی مرکزی قیادت میں شامل رہنما یکے بعد دیگرے اسے چھوڑ کر جا رہے ہیں۔
نور محمد شیخ کا کہنا ہے کہ ’’میرے کارکنوں نے میرا ساتھ نہیں دیا اس لیے میں نے تین برس بعد [جے کے اے پی کو] چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ میں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ پانچ اگست کو احتجاج کیا اور اسی دن آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔‘‘
نئی جماعتوں کے چیلنجز
سرینگر سے تعلق رکھنے والے ممتاز سیاسی تجزیہ کار اور پروفیسر نور احمد بابا نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مرکزی حکومت نے خطے میں نئی جماعتوں کو بڑھاوا دے کر کشمیر کا سیاسی نقشہ تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ لیکن یہ جماعتیں بڑی پارٹیوں خاص طور پر نیشنل کانگریس کو پیچھے نہیں دھکیل پائیں۔
نور احمد بابا کا کہنا ہے کہ ’’بھارت جیسے ملک میں ایسے اہداف حاصل کرنا مشکل ہے۔ ایک آمر بھی ایسا نہیں کر سکتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ لوگ سیاسی طور پر زیادہ باشعور ہو گئے ہیں اور حالات کا تجزیہ کرنے اور اس کے نتائج پر فیصلے کرنے کے قابل ہیں۔‘‘
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے کہا پارلیمانی انتخابات نے ثابت کیا ہے کہ نئی سیاسی جماعت بنانے میں وقت اور قربانیاں صرف ہوتی ہیں اور اسے اوپر سے تھوپا نہیں جا سکتا۔
کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے کے بعد بننے والی متعدد جماعتوں کو ایسے ہی چیلنجز کا سامنا ہے۔ سابق وزیرِ اعلیٰ غلام نبی آزاد نے ستمبر 2022 میں ڈیمو کریٹک پروگریسیو آزاد پارٹی بنائی تھی۔ جماعت کے شریک بانی تاج محمد سمیت جماعت کے درجن سے زائد رہنما اس سے اپنی راہیں جدا کر چکے ہیں۔
غلام نبی آزاد ایک دور میں بھارت کے اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی کے قریبی مشیر تھے۔ کشمیر میں جماعت بنانے کے بعد انہیں اس تنقید کا سامنا تھا کہ وادی میں قائم ہونے والی دیگر نئی جماعتوں کے رہنماؤں کی طرح وہ بھی وزیرِ اعظم مودی کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) کے خفیہ اتحادی ہیں۔
اس بارے میں شبہات کو اس وقت مزید بڑھاوا ملا جب کانگریس چھوڑنے پر نریندر مودی نے غلام نبی آزاد کو سراہا تھا۔ تاہم آزاد ایسے دعوؤں کو اپنے نئے سیاسی سفر کو غیر اہم بنانے کی کوشش قرار دیتے ہیں۔
اسی طرح کافی عرصہ قبل علیحدگی پسندی سے مرکزی دھارے میں آنے والے سیاست دان سجاد لون نے جموں و کشمیر پیپلز کانفرنس یا جے کے پی سی کی بنیاد رکھی تھی۔ تاہم اب یہ جماعت بھی مودی سے مبینہ قربت کے باعث حمایت کھو رہی رہے۔
آزاد امیدوار
کشمیر میں اگست 2019 کے بعد قائم ہونے والی سیاسی جماعتوں شامل ہونے والے رہنماؤں میں سے کئی اب آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ الیکشن میں ’نئے اتحاد بنانا پڑتے ہیں اور وابستگیاں بدلنا پڑتی ہیں۔‘‘
SEE ALSO: بھارتی کشمیر میں دس سال بعد اسمبلی انتخابات: 'حکومتِ ہند کو غلطیوں کا ازالہ کرنا چاہیے'
شمالی کشمیر کے بانڈی پورہ ضلع سے تعلق رکھنے والے سابق قانون ساز نظام الدین بھٹ نے وی او اے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں جے کے اے پی اپنی بقا کے لیے چھوڑی۔ میرے ووٹرز اور سپورٹر چاہتے تھے کہ میں اپنے آبائی ضلع سے آزاد حیثت میں الیکشن لڑوں۔‘‘
ایک اور سیاسی مبصر مزمل باقر کے نزدیک عوامی دباؤ کی وجہ سے کئی لوگ آزاد الیکشن لڑ رہے ہیں۔
ان کے بقول لوگ بہت سے امیدواروں کے کاموں کو تو تسلیم کرتے ہیں لیکن وہ ان جماعتوں کو ناپسند کرتے ہیں جن کی یہ نمائندگی کر رہے ہیں۔
مزمل باقر کا کہنا تھا کہ ’’ہم اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے کہ یہ آزاد امیدوار رواں برس الیکشن میں اکثریت حاصل کرنے والی کسی بھی جماعت کے ساتھ اکتوبر تک ہاتھ ملا سکتے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ کشمیر کی سیاست میں وفاداریاں تبدیل کرنا کوئی نئی بات نہیں۔ اکثر سیاست دانوں کے لیے اپنا مستقبل محفوظ بنانے اور اور سیاسی بقا کا یہی ایک راستہ ہوتا ہے۔
پروفیسر بابا کے خیال ہے کہ مشکل حالات میں جماعتیں بدلنے والے اور نئی دہلی سے قربت رکھنے والوں کو مشکلات کا سامنا ہو گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے کہا کہ لوگ اب سمجھ گئے ہیں کہ ان کا اصل مقصد صرف اقتدار میں رہنا ہے۔ اس لیے میرے خیال میں انہیں اس الیکشن میں اپنے طرزِ عمل کی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔
'جے کے اے پی' کے شریک بانی حسن میر نے وی او اے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کئی برسوں سے دیگر جماعتوں کی جذباتی سیاست لوگوں کو متاثر کر رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے الگ الگ نام ہوتے ہیں لیکن لوگوں تک پہنچنے کے لیے وژن اور ایجنڈا واضح ہونا کسی لیبل سے زیادہ اہم ہے۔
حسن میر کے بقول بعض لوگوں نے اس لیے ہماری پارٹی چھوڑ دی کیوں کہ وہ اقتدار چاہتے تھے اور انہیں اندازہ ہوگیا تھا کہ ہمارے ساتھ رہتے ہوئے یہ نہیں ملے گا۔ جب کہ بعض نے اپنے مینڈٹ سے متعلق توقعات پورے نہ ہونے کی وجہ سے راہیں الگ کیں۔