پاکستان میں صنعت کاروں اور تاجروں کی وفاقی تنظیم ’فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری‘ یعنی ’ایف پی سی سی آئی‘ نے کہا ہے کہ ملک میں سیاسی بے یقینی کی صورتِ حال کے اثرات معاشی سرگرمیوں پر بھی نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔
’ایف پی سی سی آئی‘ کے قائم مقام صدر عامر عطا باجوہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ موجودہ صورت حال کے سبب کاروباری برداری پریشان ہے۔
’’جیسے جیسے ملکی یا سیاسی حالات خراب ہوتے ہیں تو بین الاقوامی ادارے بھی سوچنا شروع کر دیتے ہیں اور مقامی بزنس مین کچھ عرصے کے لیے اپنا ہاتھ کھینچ لیتا ہے۔‘‘
عامر عطا باجوہ کا کہنا تھا کہ اُن کی عدالت عظمیٰ سے درخواست ہے کہ جو بھی فیصلہ کرنا ہے وہ اگر جلد کر دیا جائے تو اس کے بعد ’’جو بھی مثبت یا منفی اثرات (معیشت) پر پڑنے ہیں وہ جلد از جلد سامنے آئیں تو اس سے بھی یہ جو کیفیت بنی ہوئی ہے وہ ختم ہونے میں مدد ملے گی۔‘‘
’ایف پی سی سی آئی‘ کی علاقائی کمیٹی برائے انڈسٹریز کے چیئرمین عاطف اکرام شیخ نے منگل کو ایک بیان میں کہا ہے کہ گزشتہ دو برسوں کے دوران ملک میں معاشی و اقتصادی سرگرمیوں میں اضافہ دیکھا گیا اور عالمی اداروں بشمول ’آئی ایم ایف‘ کی طرف سے بھی پاکستان کے اقتصادی ڈھانچے میں بہتری کا اعتراف کیا گیا۔
تاہم اُن کا کہنا تھا کہ اب سیاسی درجہ حرارت میں اضافے کے بعد نہ صرف اسٹاک ایکسچینج میں مندی دیکھی گئی بلکہ دیگر اقتصادی اشاریے بھی تیزی سے نیچے آ رہے ہیں۔
عاطف اکرام شیخ اور بعض دیگر تاجر و صنعت کاروں کا کہنا تھا کہ اگر ملک میں سیاسی بے یقینی یوں ہی جاری رہی تو معاشی صورت حال مزید ابتر ہو سکتی ہے۔
واضح رہے کہ حال ہی میں کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی 'موڈیز' نے پاکستان کی ریٹنک کو منفی سے مثبت میں بدل دیا تھا۔
گزشتہ ہفتے وزیراعظم نواز شریف نے بھی اپنی جماعت کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس سے خطاب میں کہا تھا کہ سیاسی عدم استحکام اور بے یقینی پیدا کرنے والے عناصر اُن کے بقول ملک کی معشیت کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ اسٹاک مارکیٹ 54 ہزار پوائنٹس کی ریکارڈ حد تک پہنچ کر اس ماحول کی وجہ سے نیچے آ رہی ہے۔
پاناما لیکس میں شریف خاندان کے بیرون ملک اثاثوں سے متعلق انکشافات کی تحقیقاتی کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد وزیراعظم نواز شریف کے سیاسی مخالفین اُن سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
جب کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ پر سپریم کورٹ میں سماعت بھی جاری ہے۔
اس صورت حال میں ہونے والی قیاس آرئیوں میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کے خلاف سخت فیصلہ بھی آ سکتا ہے۔
انھی قیاس آرائیوں کے اثرات نہ صرف اپن ملک سیاسی منظر نامے پر نظر آ رہے ہیں بلکہ کاروباری برداری بھی پریشان ہے۔
گزشتہ دو ہفتوں کے دوران پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں 2000 پوائنٹس سے زائد کی کمی آ چکی ہے۔ اگرچہ اس دوران پاکستانی روپے کی قدر میں بھی اچانک کمی دیکھی گئی لیکن یہ عارضی ثابت ہوئی اور دوبارہ سے روپے کی قدر میں استحکام آ گیا۔