سفید اور کالے رنگ کے 64خانوں والی شطرنج کی بساط پر 32مہروں کا کھیل سیاست سے بہت زیادہ ملتا جلتا ہے۔ جس طرح اس کے مہرے یعنی وزیر ، رخ، فیلے ، پیادے اور گھوڑے کبھی بھی سیاسی رخ بدل سکتے ہیں اسی طرح آج کل ملکی سیاست میں ہوتا نظر آرہا ہے۔
سیاسی مبصرین اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے ایک لمبی چپ سادھنے کے بعد اچانک حکومت کے مخالف بیان دے کر نیا سیاسی محاذ کھول دیا ہے، حالانکہ ابھی تک تو حکمراں جماعت آزادی یا لانگ مارچ کو روکنے کے لئے نت نئی تگ و دو میں لگی ہے۔
پاکستان کے دو بڑے اخبارات ’ایکسرپس‘ اور ’ٹری بیون‘ کی خبروں کا جائزہ لیں تو معلوم یہ ہوتا ہے کہ حکمراں جماعت مسلم لیگ ن نے جشن آزادی کے موقع پر 14 اگست کو پارلیمنٹ ہاوٴس کے باہر پہلی بار فوجی پریڈ کرانے کا فیصلہ کیا ہے جس میں وزیراعظم نوازشریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھی شرکت کریں گے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ چونکہ پچھلے کئی سالوں سے سیکورٹی بنا پر یوم آزادی کے موقع پر سالہا سال سے جاری روایتی فوجی پریڈ نہیں ہو رہی تھی، لہذا جبکہ فوج نے آپریشن عضب کے ذریعے شدت پسندوں کو کافی حد تک شکست دے دی ہے۔ لہذا، رواں سال اسلام آباد کے ڈی چوک پر فوجی پریڈ منعقد ہوگی۔
مبصرین اور سیاست سے گہری دلچسپی رکھنے والوں کا کہنا ہے دراصل یہ ڈی چوک وہی جگہ ہے جہاں پاکستان تحریک انصاف نے 14 اگست کو الیکشن میں مبینہ دھاندلی کے خلاف 10 لاکھ افراد کی ریلی نکالنے اور دھرنا دینے کا اعلان کیا تھا۔ لہذا، حکومت کی جانب سے فوجی پریڈ کا اعلان آزادی مارچ سے بچنے کی سیاست ہے۔
ادھر مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکریٹری اطلاعات قمر زمان کائرہ نے حکومت پر نکتہ چینی کی ہے۔
چوہدری شجاعت حسین کے بقول، مسلم لیگ (ن) اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل میں فوج کو سہارا نہ بنائے، اور یہ کہ، آرمی چیف کو ڈی چوک لے جاکر نئی روایت نہ ڈالی جائے۔ تاریخی حوالے شاہد ہیں کہ فوجی پریڈ 23 مارچ کو ہوتی رہی ہے 14 اگست کو نہیں۔
قمر زمان کائرہ کے الفاظ میں، ’پی ٹی آئی رہنما عمران خان کے لانگ مارچ کے اعلان کے بعد، حکومت کا اسی مقام پر یوم پاکستان کی تقریبات کا اعلان محاذ آرائی کی سوچ کا عکاس ہے۔‘