سیاسی غیریقینی کے معیشت پرمنفی اثرات، سٹاک مارکیٹ میں 1250 پوانٹس کی کمی

فائل فوٹو

پاکستان میں اتوار کو قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کی وزیرِ اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پر متنازع رولنگ اور پھر وزیرِ اعظم کی تجویز پر صدرِ مملکت کے قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے سے پیدا ہونے والی غیر یقینی صورتِ حال کے اثرات ملکی معیشت پر بھی نظر آ رہے ہیں اور اسٹاک مارکیٹ میں ایک ہی روز میں 1250 پوائنٹس کی کمی دیکھی گئی۔

ہفتے کے پہلے روز اسٹاک مارکیٹ میں 16 کروڑ 97 لاکھ شئیرز کا کاروبار ہوا جو گزشتہ روز یعنی جمعے سے حجم میں 2.86 فی صد کم تھا۔ مجموعی طور پر 84 کمپنیوں کے حصص کے بھاؤ میں کمی دیکھی گئی، جب کہ صرف نو ہی کے شئیرز کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔

’مندی کی وجہ سیاسی غیر یقینی ہے‘

مبصرین کے مطابق مارکیٹ کی اس صورتِ حال کی بنیادی وجہ ملک میں غیر یقینی سیاسی حالات ہیں جس کی وجہ سے سرمایہ کاروں بالخصوص غیر ملکی سرمایہ کاروں نے حصص بیچنے کو ترجیح دی۔

مارکیٹ کے تجزیہ کار امین غفار نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ سیاسی میدان میں تبدیلی کی خبروں نے سرمایہ کاروں پر منفی اثر ڈالا ہے۔ سرمایہ کار اس وقت مخمصے کا شکار ہیں کیوں کہ حکومت دیکھ کر ہی یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ مستقبل قریب میں اس کی پالیسی کیا ہو گی۔

سیاسی صورتِ حال کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پیر کو ملک میں جاری سیاسی کشیدگی کی وجہ سے بڑی تعداد میں غیر ملکی سرمایہ کاروں نے اپنا سرمایہ اسٹاک مارکیٹ سے نکال لیا جب کہ پاکستان میں پہلی بار رواں مالی سال کے دوران براہِ راست بیرونی سرمایہ کاری میں 30 فی صد کمی دیکھی جاچکی ہے جس کی بنیادی وجہ تیل اور گیس کی عالمی مارکیٹ میں بڑھتی ہوئی قیمتیں اور روس یوکرین کی جنگ بتائی جاتی ہیں۔

امین غفار کا کہنا ہے کہ آٹھ مارچ کو تحریکِ عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد سے ہی مارکیٹ دباؤ کا شکار ہے۔

معاشی مبصرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس کے اختتام پر پاکستان میں کئی معروف کمپنیوں کی کارکردگی شاندار رہی اور اس کی بناٗ پر انہوں نے بھی بھاری منافع کمایا۔ جب کہ مارکیٹ میں بھی کافی تیزی دیکھی گئی تھی لیکن اب سیاسی کشیدگی کی وجہ سے مارکیٹ میں استعداد ہونے کے باوجود مندی دیکھی جارہی ہے۔

تجارتی خسارے کی وجہ سے روپے کی قدر گرنے کا سلسلہ جاری

بعض مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ مارکیٹ میں غیر یقینی کی ایک اور وجہ پاکستانی روپے کی قدر میں تیزی سے آنے والی کمی ہے۔

فاریکس مارکیٹ کے اعداد و شمار کے مطابق ایک امریکی ڈالر کی قیمت 184 روپے سے بھی تجاوز کر چکی ہے اور رواں مالی سال کے دوران اس میں مجموعی طور پر 16 فی صد سے زائد کی گراوٹ دیکھی گئی ہے۔

معاشی ماہر جبران سرفراز کا کہنا ہے کہ روپے کی قدر میں گراوٹ کی بنیادی وجہ تجارتی خسارہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ تجارتی خسارہ اس حقیقت کے باوجود بڑھا ہے کہ پاکستان کی برآمدات میں رواں مالی سال میں 25 فی صد سے زائد کا اضافہ ریکاڈ کیا جاچکا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے مقابلے میں درآمدات میں 48 فی صد اضافہ ہوا ہے۔

ادارہ شماریات پاکستان کی جانب سے جاری کردہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کو رواں مالی سال جولائی سے مارچ کے تک پہلے نو ماہ میں 35 ارب ڈالرز سے زائد کا تجارتی خسارہ ہوا ہے جب کہ گزشتہ سال اسی عرصے میں یہ خسارہ 20 ارب ڈالرز تھا۔

جبران سرفراز نے بتایا کہ تجارتی خسارے کی وجہ سے ادائیگیوں کا توازن بھی پاکستان کے لیے منفی ہے جس کی وجہ سے بیرونی ادائیگیوں میں مزید مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔

قرض کی نئی قسط کے حصول کے لیے مذاکرات

پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے درمیان تین ارب ڈالرز قرض کی نئی قسط کے لیے گزشتہ دو ہفتوں سے مذاکرات جاری ہیں لیکن فریقین اب تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچے اور یوں پاکستان کو ابھی تک ایک ارب ڈالر کے لگ بھگ رقم کا اجرا ممکن نہیں ہو سکا۔

ادھر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس موجود غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں ایک ہفتے میں دو ارب 90 کروڑ ڈالرز کی بڑی گراوٹ دیکھنے میں آئی ہے، جس میں پاکستان نے چین کے ذمے قرض سمیت کئی اہم ادائیگیاں کی ہیں۔

ان تمام وجوہات کی وجہ سے پاکستان کے روپے کی قدر میں رواں ماہ مزید کمی کی توقع کی جارہی ہے۔

مبصرین کے مطابق ایسی صورتِ حال میں کسی بھی حکومت کے لیے آنے والے مہینوں میں بجٹ کی تیاری کسی بڑے چیلنج سے کم نہیں ہو گی۔

دوسری جانب اعداد و شمار یہ بھی بتاتے ہیں پاکستان میں معاشی سرگرمیاں گزشتہ چند ماہ میں کافی تیزی سے بڑھی ہیں۔ملک میں تیل اور بجلی کی کھپت میں اضافہ ہوا ہے جب کہ برآمدات میں اضافہ بھی 25 فی صد کے لگ بھگ ہے۔

معیشت میں تیزی کی اہم وجہ لارج اسکیل مینو فیکچرنگ، سروسز سیکٹر میں بہتری کے ساتھ زرعی شعبے میں بھی تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔