بیجنگ کو دنیا بھر میں نمایاں تر کرنے والے سنگ میل تیان من سکوائر ،ممنوعہ شہر،عظیم دیوار چین،تین دیوہیکل ڈیمز اور درجنوں اعلیٰ ترین شاپنگ مال شامل ہیں۔
ہزارہا سال سے چین حقیقتاً ایک بڑے ٹھاٹھ باٹھ سے آگے بڑھتا رہا ہے اور دنیا میں عظمت رفتہ کا مقام حاصل کرنے اور بادشاہوں سے لے کر موجودہ حکمراں شی جن پنگ تک اپنی سیاسی قوت کامظاہرہ کرتا آیا ہے۔
شاید اس حقیقت کو دنیا نے اہمیت نہ دی ہو کہ بیجنگ پہلا شہر ہے جہاں سرمائی اور گرمائی دونوں اولمپکس منعقد ہوئے ہیں۔لیکن دنیا کے سب سے زیادہ گنجان آباد شہر کا یہی امتیاز ہے جو اپنے آپ کو دنیا کا مرکز خیال کرتا ہے ،جیسا کہ اس کے چینی نام زانگ گو سے ظاہر ہے، جس کا مطلب "وسطی ملک" ہے۔
عظمت رفتہ سے یہ رشتہ نیا نہیں۔ ہزارہا سال کی تاریخ بتاتی ہے کہ درجنوں سلاطین نے چین پر حکومت کی ہے۔بڑے پیمانے پر اقتدار قائم رکھنے کے اسی خواہش کی روایت کو چین کی کمیونسٹ پارٹی نے اپنایا جب اس نے 1949ء میں نظام سنبھالا۔
امریکی چینی دانشور ،اورول شیل نے اپنی کتاب 'مینڈیٹ آف ہیون' میں یہ وضاحت کی ہے کہ کس طرح ماؤ نے ،جنہوں نے چینی کمیونسٹ انقلاب کی بنیاد رکھی، ،1950ء میں تیان من سکوائر کو دنیا کا سب سے بڑا پبلک سکوائر بنانے کےلیے 100 ایکڑ تک وسیع کر دیا۔
SEE ALSO: شی جن پنگ کیلئے تا حیات چینی صدر رہنے کی راہ ہموارپبلک سکوائر ماسکو کے ریڈ سکوائر سے پانچ گنا بڑا ہے،اور ماؤ روسیوں سے ایک قدم اور آگے چلے گئے جب انہوں نے اسکوائر کو سوویت طرز تعمیر سے آراستہ کیا،جن میں سب سے مشہور عظیم عوامی ہال ہے۔اور جب 1974ء میں ماؤ کا نتقال ہوا تو ان کا مقبرہ اس میں شامل کر لیا گیا۔
شیل نے تیان من سکوائر کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ ایک مبلغ کا خواب تھا جو پورا ہوا اور اسکی ہر چیز دیو ہیکل ہے۔یہ قوی الجثہ سکوائر ملک کی ایک ارب سے زائد آبادی کے ساتھ شروع ہوا اور پھر پورے چین میں عوامی عمارتوں تک پھیل گیا۔بلند و بالا اپارٹمنٹس کے بلاکس کچھ سوویت سے متاثر ہو کر بنائے گئے اور کچھ پچھلے عشروں میں جدید طرز تعمیرلیے ہوئے تھے۔یہ وسعت شاپنگ مالز ،تجارتی جگہوں اور برڈز نیسٹ سٹیڈیم تک پھیل گئی، اکیانوے ہزار سیٹوں کا یہ سٹیڈیم ،جو سن 2008ء کے اولمپک کے لیے بنا یا گیا تھا اور ایک ہفتہ قبل سرمائی کھیلوں کی افتتاحی تقریب کےلیے استعمال ہوا ۔
ایک طویل سات منزلہ عمارت جو ان اولمپکس میں میڈیا سنٹر کے طور پر استعمال ہوئی، یہ ایک بلاک دور اس میڈیا سنٹر کا متبادل تھی جو سن 2008ءکے کھیلوں میں استعمال ہوئی تھی۔
پھر چالیس ہزار کلومیٹر یا پچیس ہزار میل تیز رفتار ریلوے لائینز ہیں اور بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ ہے جو عموماً نئی سلک روڈ کہلاتا ہے۔بہت سے اسے تاریخ کا سب سے بڑا تعمیراتی منصوبہ کہتے ہیں جو چین اور مشرقی ایشیا سےلے کر یورپ تک پھیلا ہوا ہےاور اس میں ریلوے لائینز ،بندرگاہیں، شاہراہیں اور دوسرے تعمیراتی منصوبے شامل ہیں جو چین کی تجارت اور اثر و رسوخ کو بڑھا تے ہیں۔نقاد بہت سے شریک ملکوں کو ناقابل برداشت قرضوں سے خبردار کرتے ہیں۔
چین پر کرونا وائرس کا حملہ بھی فیل قامت تھا ، جس میں لاکھوں کی تعداد میں لاک ڈاؤن کیے گئے اور جب وبا کے دوران ہسپتال کی ضرورت پڑی تو چین نے دس روز میں ایک ہزار بستروں کا ہسپتال بنا دیا۔
سن 2008ء کے اولمپکس کے لیے چین نے موسم تک کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی تھی اور دعویٰ کیا تھا کہ آلودہ آسمان کو صاف کرنے کے لیے بارش برسائی گئی اور جب چاہا یہ بارش بند کر دی گئی۔
ساٹھ سال پہلے ماؤزے تنگ نے بلند بانگ دعوے کیے تھے کہ زراعت کے نئے طریقوں سے چین فاقہ زدگی سے باہر آجائے گا، ان کے قدرت کو شکست دینے کے منصوبے ، زیادہ تر نظریہ اور مصنوعی سائنس پر مبنی تھے اور جن سے بڑے پیمانے پر قحط پھیلا۔
یونیورسٹی آف ڈبلن میں انٹرنیشنل ریلیشنز پڑھانے والے الیگزنڈر ڈوکاسز نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ حاکمانہ جماعتیں اور لیڈر نہایت مستحکم ہونے کا تاثر دیتے ہیں ۔وہ طاقت کے ایسے نشانات اور اشارے دیتے ہیں کہ ان کی حکمرانی ناگزیر لگے اور ان کے خلاف ہر کوشش ناکام ہو۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ریاستی طاقت کے منصوبے بین الاقوامی لوگوں پر اثر انداز ہونے کے لیے فائدے مند ہوتے ہیں اور وہ دوسرے ملکوں اور کمپنیوں کو قائل کر سکتے ہیں کہ اگر وہ ان کے احکامات کو پورا نہیں کریں گے تو انہیں سز ا ملے گی۔
جارجیا یونیورسٹی میں چین کے بارے میں ماہر ماریا ریپنیکووا ، چین کے بڑا بننے کی پالیسی کو جاہ و جلا ل کی سیاست کہتی ہیں ۔ایک انٹرویو میں ریپنیکووا کا کہنا تھا کہ اس کا مقصد بیرونی لوگوں پر یہ تاثر چھوڑنا ہے کہ ہمارے پاس اتنا کچھ ہے کہ کوئی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
(خبر کا مواد اےپی سے لیا گیا)