برطانیہ میں جمعرات کو پارلیمانی انتخابات کے لیے رائے شماری شروع ہو گئی ہے۔ ان انتخابات میں برطانیہ کے دارالعوام کی 650 نشستوں کے لیے مقابلہ ہو گا۔
عوامی جائزوں کے مطابق مقابلہ سخت ہے اور فاتح کے متعلق پیش گوئی کرنا مشکل ہے۔
ان انتخابات میں چار کروڑ پچاس لاکھ افراد ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں جن کے لیے ملک بھر میں 50,000 پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے ہیں۔ پولنگ مقامی وقت کے مطابق صبح سات بجے شروع ہوئی جو رات دس بجے تک جاری رہے گی۔
بدھ کو ہونے والے ایک قومی جائزے کے مطابق وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون کی کنزرویٹو پارٹی کو 33 فیصد ووٹروں کی حمایت حاصل ہے جبکہ ان کے حریف ایڈ ملی بینڈ کی لیبر پارٹی ان سے صرف ایک پوائنٹ پیچھے ہے۔
جائزے سے ظاہر ہوتا ہے کہ انتخابات کے نتائج برطانیہ کی دو مرکزی سیاسی جماعتوں میں سے ایک کو متعدد چھوٹی جماعتوں کے ساتھ مخلوط حکومت قائم کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔
تجزیہ کار ان انتخابات کو برطانیہ کی ایک نسل کے سب سے زیادہ غیر متوقع اور اہم الیکشن قرار دے رہے ہیں۔
ڈیوڈ کیمرون نے وعدہ کیا ہے کہ اگر وہ دوبارہ وزیرِ اعظم منتخب ہوئے تو وہ اس بات پر ریفرینڈم کرائیں گے کہ برطانیہ کو 28 اراکین پر مشتمل یورپی یونین میں رہنا چاہیئے یا نہیں۔
سکاٹ لینڈ کی برطانیہ سے علیحدگی کا سوال بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ سکاٹ لینڈ کے قوم پرست گزشتہ سال اس مسئلے پر کرایا جانے والا ریفرینڈم ہار گئے تھے مگر جمعرات کو ہونے والی رائے شماری میں تیسری بڑی طاقت بن کر ابھر سکتے ہیں اور لیبر پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت قائم کر سکتے ہیں۔
2010 سے برطانیہ کے وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون اور ان کے مخالف ایڈ ملی بینڈ دونوں نے ان انتخابات کو ملک کی معیشت پر ریفرینڈم قرار دیا ہے۔ برطانیہ دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے۔