برطانیہ کی 70 برسوں میں پہلی تاجپوشی ہفتے کے روز منعقد ہو رہی ہے، جس میں ایک بڑی روایتی تقریب میں چارلس سوئم کی بطور بادشاہ تاج پوشی کی جا رہی ہے۔ اس رسم کی کڑیاں تاریخ میں ایک ہزار سال گہری ہیں۔
تاج پوشی کی یہ تقریب 1937 کے بعد کسی برطانوی بادشاہ کی پہلی تقریب ہے جو گزشتہ ستمبر میں چارلس کی والدہ ملکہ الزبتھ دوم کی وفات کے بعد ہو رہی ہے۔
ملکہ الزبتھ دوم کا شمار برطانوی تاریخ میں طویل مدت تک تاج رکھنے والے حکمرانوں میں ہو تا ہے۔
تاج پوشی کی تقریب لندن کے ویسٹ منسٹر ایبی میں ہو گی جس میں چارلس کی دوسری بیوی کمیلا کو بھی ملکہ کا تاج پہنایا جائے گا۔
اہم شخصیات کی شرکت
اس تقریب میں جرمنی اور فرانس کے صدور ، یورپی یونین کے سینئر راہنماؤں کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک سے آنے والی شخصیات کے ساتھ 2300 مہمانوں کی شرکت متوقع ہے۔
برطانیہ کے وزیر اعظم رشی سونک نے جمعہ کو اپنے ایک بیان میں اس تقریب کو ’’ قومی افتخار کا اہم لمحہ‘‘ اور ’’ ملک کے امتیاز کا مظاہرہ‘‘ قرار دیا ہے۔
انہوں نے اسکائی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ ہم سب کے لیے خدمت، امید اور اتحاد کے جذبے کے اظہار اور مستقبل کی طرف دیکھنے کا موقع ہے ‘‘۔
اس تقریب کی پریڈ میں 7 ہزار فوجی شریک ہوں گے جس میں ان کا بینڈ اور دوسرے دستے بھی شامل ہیں۔ اس موقع پر فضائی پاسٹ کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔
تاج پوشی کے جشن کی مخالفت
ایک طرف جہاں تاج پوشی کی شایان شان تقریبات کی تیاریاں اپنے عروج پر ہیں تو دوسری جانب ایسے افراد بھی موجود ہیں جو جشن منانے کے حق میں نہیں ہیں اور احتجاج کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اسی طرح عمومی طور پر نوجوانوں میں بھی تاج پوشی کے حوالے سے گرم جوشی دیکھنے میں نہیں آ رہی۔
ایک زمانہ تھا جب تاجِ برطانیہ کی سلطنت کی حدود اتنی وسیع تھیں کہ ان میں ہمہ وقت کہیں نہ کہیں سورج چمک رہا ہوتا تھا اور اب یہ حکومت یورپ کے ایک چھوٹے سے حصے میں سمٹ کر رہ گئی ہے۔ تاہم اب بھی دولتِ مشترکہ میں 14 ایسے ممالک شامل ہیں جو ماضی میں تاجِ برطانیہ کا حصہ رہ چکے ہیں۔ لیکن اب ان میں تاج کی اہمیت رفتہ رفتہ کمزور پڑ رہی ہے۔
دور دراز سے شائقین کی آمد
برطانیہ میں شاہی خاندان سے محبت کرنے والوں کی بھی کمی نہیں ہے۔تاج پوشی کی تقریب کو دیکھنے کے لیے لوگ ملک کے دور دراز حصوں سے لندن پہنچنا شروع ہو گئے ہیں۔ ان میں وسطی انگلستان کے 54 سالہ کیرول فیئر ، ان کا 8 سالہ بیٹا اور 57 سالہ بہن کیرن چیمبرلین بھی شامل ہیں جو اپنے رہنے کے لیے خیمے اور سلیپنگ بیگ بھی ساتھ لائے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہاں آنے کا مقصد اس جذبے کا اظہار کرنا ہے کہ ہمیں بادشاہت پر فخر ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ جب ولی عہد ولیم بادشاہ بنیں گے تو ہم تب بھی لندن آئیں گے۔
اس موقع کے لیے ریلوے نے بھی خصوصی انتظامات کیے ہیں۔
ایک جانب جہاں تاج پوشی کے موقع پر ررق برق لباس اور قیمتی زیورات کی نمائش اورشاندار پریڈ ہو گی وہاں برطانیہ میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جنہیں مہنگائی ، روزگار اور کم تنخواہوں جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے جس کے بارے میں ہڑتالوں سمیت مختلف انداز میں آوازیں بلند ہوتی رہتی ہیں۔ شمالی لندن میں رہنے والی 38 سالہ ایڈن ایوٹ کہتی ہیں کہ زندگی آسان نہیں ہے، بہت جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔میں ہفتے میں صرف دو دن کھانا پکا سکتی ہوں ، کچھ لوگ تو یہ بھی نہیں کر سکتے۔
کثیر اخراجات
اندازہ لگایا گیا ہے کہ تاج پوشی کی تقریب کی سیکیورٹی پر تقریباً ساڑھے بارہ کروڑ ڈالر لگیں گے ۔ یہ رقم عوام کے ٹیکسوں سے آئے گی۔
ایک تجارتی ادارے یوکے ہاسپیٹیلیٹی کے ترجمان نے کہا ہے کہ اس تقریب کے لیے پیر کے روز بھی چھٹی کر دی گئی ہے جس کے بعد توقع ہے کہ مہمانوں کی بڑے پیمانے پر آمد سے کاروباروں کو 35 کروڑ پاؤنڈ کی آمدنی ہو سکتی ہے۔
(اس رپورٹ کا کچھ مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے)