امریکہ کے وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو اسلام آباد پہنچ گئے ہیں جہاں انہوں نے دفترِ خارجہ میں اپنے پاکستانی ہم منصب شاہ محمود قریشی سے وفود کی سطح پر بات چیت کی ہے۔
بات چیت کے بعد پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان نے ٹوئٹر پر جاری ایک مختصر بیان میں کہا ہے کہ دونوں ملکوں کے وفود نے دو طرفہ، علاقائی اور بین الاقوامی معاملات پر بات چیت کی۔
بیان کے مطابق امریکی ہم منصب سے بات چیت میں پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے باہمی تعلقات کو احترام اور اعتماد کے بنیاد پر نئی جہت دینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی اولین ترجیح اس کا قومی مفاد ہوگا۔
سیکریٹری پومپیو کے ہمراہ امریکہ کے مسلح افواج کے سربراہ جنرل جوزف ڈنفورڈ بھی اسلام آباد پہنچے ہیں۔
دونوں رہنما وزیرِ اعظم عمران خان اور پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔
امریکی وفد میں سابق امریکی سفیر زلمے خلیل زاد بھی شامل ہیں جنہیں امریکی محکمۂ خارجہ نے منگل کو ہی افغانستان کے لیے اپنا نمائندۂ خصوصی مقرر کرنے کا اعلان کیا تھا۔
خلیل زاد اس سے قبل افغانستان، عراق اور اقوامِ متحدہ میں امریکہ کے سفیر رہ چکے ہیں۔
امریکی وزیرِ خارجہ کا یہ دورہ ایسے وقت ہو رہا ہے جب امریکی حکومت نے پاکستان کو دی جانے والی مالی امداد اور اعانت منسوخ کردی ہے جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے تعلقات میں سرد مہری ہے۔
پاکستان آمد سے قبل اپنے ایک بیان میں مائیک پومپیو نے کہا تھا کہ پاکستان نے اب تک دہشت گرد گروہوں کے خلاف اتنی کارروائی نہیں کی کہ اس کی منسوخ شدہ امریکی امداد بحال کی جاسکے۔
سیکریٹری پومپیو نے یہ بات منگل کو واشنگٹن ڈی سی سے اسلام آباد روانگی کے بعد جہاز میں موجود صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔
خبر رساں ادارے 'بلوم برگ' کے مطابق دورانِ پرواز صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ وہ اسلام آباد میں اپنی ملاقاتوں کے دوران پاکستانی قیادت کو یہ باور کرائیں گے کہ امریکہ کو دہشت گرد گروہوں کے خلاف وہ پیش رفت دیکھنے کو نہیں ملی جس کی اسے توقع تھی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اپنی سرزمین پر موجود دہشت گرد گروہوں کے خلاف اتنی کارکردگی نہیں دکھائی جس کے پیشِ نظر "ہم اس کی معاشی امداد بحال کرنے کی وکالت کرنے کے قابل ہوں۔"
تاہم ساتھ ہی امریکی وزیرِ خارجہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان میں نئی حکومت کے آغاز پر ہی ان کے اس دورے کا مقصد دونوں ملکوں کے تعلقات کو "از سرِ نو شروع" کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کو باہمی تعلقات میں کئی چیلنج درپیش ہیں لیکن ان کے بقول "ہمیں امید ہے کہ نئی قیادت کے ساتھ ہم مشترک قدریں تلاش کر سکتے ہیں اور اپنے بعض مشترکہ مسائل پر مل کر کام شروع کرسکتے ہیں۔"
اپنی گفتگو میں مائیک پومپیو کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ پاکستان کی نئی حکومت پر اپنی توقعات واضح کرنا چاہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ ہفتے امریکی محکمۂ دفاع کی جانب سے پاکستان کی امداد منسوخ کرنا کوئی اچانک قدم نہیں تھا اور نہ ہی یہ پاکستانیوں کے لیے کوئی نئی خبر تھی۔
امریکی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ پاکستانیوں کو پتا ہے کہ یہ رقم کیوں روکی گئی ہے کیوں کہ ان کے بقول "ہمیں انہوں نے وہ کارکردگی نہیں دکھائی جس کی ہمیں ان سے توقع تھی۔"
انہوں نے کہا کہ ان کے اسلام آباد کے دورے کا مقصد بھی پاکستانیوں پر یہ واضح کرنا ہے کہ امریکہ ان سے کیا چاہتا ہے۔ ان کے بقول "ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان اس مفاہمت کے حصول میں ہماری سنجیدگی سے مدد کرے جو ہم افغانستان میں چاہتے ہیں۔"
اسلام آباد میں ملاقاتوں کے بعد سیکریٹری پومپیو اور ان کا وفد بدھ کی شب ہی نئی دہلی روانہ ہوجائے گا جہاں جمعرات کو دونوں ملکوں کے درمیان مختلف شعبوں میں 'اسٹریٹجک تعلقات' پر مذاکرات ہوں گے۔
ان مذاکرات میں شرکت کے لیے امریکی وزیرِ دفاع جِم میٹس بھی نئی دہلی پہنچ رہے ہیں۔
منگل کو دورانِ پرواز صحافیوں سے گفتگو میں مائیک پومپیو نے بتایا کہ مذاکرات کے دوران وہ بھارتی حکام کو بھارت کی جانب سے روس سے میزائل نظام کی خریداری پر امریکی تشویش سے آگاہ کریں گے جب کہ ایران سے تیل کی درآمدات روکنے پر بھی اصرار کریں گے۔
تاہم امریکی وزیرِ خارجہ کے بقول وہ سمجھتے ہیں کہ یہ دونوں معاملات ان دیگر امور پر اثر انداز نہیں ہوں گے جن میں تعاون کے لیے دونوں ملکوں کی اعلیٰ قیادت کے درمیان بات چیت جاری ہے۔