اپنے پہلے دورہٴ پاکستان میں، امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو بدھ کو اسلام آباد پہنچ رہے ہیں، جس دوران وہ نئی منتخب حکومت سے اعلیٰ سطحی سرکاری ملاقاتیں کریں گے، ایسے میں جب گذشتہ سال سے دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات نچلی سطح پر پہنچ چکے ہیں۔
اُن کے دورے میں امریکہ کے ساتھ پاکستان کے پیچیدہ تعلقات میں آنے والے تعطل کو ختم کرنے کی توقعات کے حوالے سے علاقائی دہشت گردی سے نبردآزما ہونے اور افغانستان میں 17 سالہ پرانے مہلک تنازعے کو ختم کرنے میں طویل عرصے کی اختلافی سوچ حائل ہے، حالانکہ دونوں ملک انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں سرکاری طور پر اتحادی ہیں۔
پاکستان آمد پر جوائنٹ چیفز آف اسٹاف جنرل جوزف ڈنفورڈ پومپیو کے ہمراہ ہوں گے، جس سے ملاقاتوں کے دوران انسداد دہشت گردی کی امریکی کوششوں پر دھیان مبذول رہنے کی نشاندہی ہوتی ہے، جو معاملہ جنوب ایشیا کے ایک ساتھی کے ساتھ غیر اطمینان بخش تعلقات کا غماز ہے۔
امریکی وفد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور اُن کی ٹیم کے ساتھ باضابطہ مذاکرات کرے گا۔
حکام نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ دورے پر آنے والے مہمان وزیر اعظم عمران خان سے ملیں گے جنہوں نے دو ہفتے قبل عہدے کا حلف لیا ہے؛ اور وفد فوج کے سربراہ، جنرل قمر جاوید باجوہ سے علیحدہ ملاقات کرے گا۔
افغانستان میں امریکی حمایت سے طالبان کے خلاف جاری لڑائی میں آنے والے تعطل کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے، گذشتہ سال صدر ٹرمپ نے گذشتہ سال جنوب ایشیا سے متعلق پالیسی کا اعلان کیا تھا، جس میں اُنہوں نے پاکستان پر ’’دوغلے پن‘‘ کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ وہ اندرونی طور پر سرکشی کی حمایت کرتا ہے۔
پاکستان مستقل اس الزام کو مسترد کرتا آیا ہے کہ وہ باغیوں کو محفوظ ٹھکانے فراہم کر رہا ہے۔ پاکستان امریکہ پر زور دیتا ہے کہ مذاکرات کے ذریعے تنازعے کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی جائے، یہ کہتے ہوئے کہ فوجی طاقت کے استعمال سے اس مقصد کے حصول میں ناکامی ہوئی ہے، اور اس کے برعکس علاقے میں دہشت گردی کو شہ ملی ہے اور طالبان کو موقع ملا ہے کہ وہ مزید افغان علاقہ ہتھیالیں۔