پوپ فرینسس کی میانمار کے فوجی سربراہ سے ملاقات

ینگون

سینئر جنرل نِن آنگ ہلینگ کے دفتر نے ’فیس بک‘ پر شائع ایک پوسٹ میں کہا ہے کہ ’’میانمار میں کسی کے ساتھ قطعاً کوئی امتیاز نہیں برتا جاتا۔ اِسی طرح، ہماری فوج بھی ملک کے امن و استحکام کے کام میں مدد دیتی رہی ہے‘‘

میانمار کے فوجی سربراہ نے کہا ہے کہ اُنھوں نے پوپ فرینسس کو بتایا ہے کہ اُن کے ملک میں کوئی ’’مذہبی امتیاز نہیں برتا جاتا‘‘، جہاں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف شدد کو امریکہ نے’’نسل کشی‘‘ قرار دیا ہے۔

سینئر جنرل نِن آنگ ہلینگ کے دفتر نے ’فیس بک‘ پر شائع ایک پوسٹ میں کہا ہے کہ ’’میانمار میں کسی کے ساتھ قطعاً کوئی امتیاز نہیں برتا جاتا۔ اِسی طرح، ہماری فوج بھی ملک کے امن و استحکام کے کام میں مدد دیتی رہی ہے‘‘۔

پوپ فرینسس نے پیر کے روز میانمار کے فوجی سربراہ کے ساتھ ملاقات کی، ایسے میں جب اُنھوں نے اس جنوب مشرقی ایشیائی ملک کے دورے کا آغاز کیا، جس میں ریاستِ رخائن میں تشدد کی کارروائی پر گفتگو ہوئی، جس کے نتیجے میں 620000 سے زائد روہنگیا مسلمان ملک چھوڑ کر ہمسایہ بنگلہ دیش کی جانب بھاگ نکلے ہیں۔

پندرہ منٹ کی اس ملاقات کے بعد، ویٹیکن کے ترجمان، گریگ برک نے بتایا کہ دونوں نے ’’اِس عبوری دور میں، ملکی حکام پر جو بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، اُس پر بات کی‘‘، جس کے بعد تحفوں کا تبادلہ ہوا۔

کسی پوپ کا میانمار کا یہ پہلا دورہ ہے۔ اُنھوں نے ینگون میں آرک بشپ کی رہائش گاہ پر فوجی سربراہ کا خیرمقدم کیا، جہاں اگلی جمعرات تک اُن کا قیام رہے گا، جب وہ بنگلہ دیش روانہ ہوں گے۔

میانمار کی کیتھولک چرج کے ترجمان، ماریانو سو نینگ کے مطابق، پیر کو ینگون میں آمد کے موقعے پر میانمار کے تقریباً 700000 کیتھولک مسیحیوں میں سے ہزاروں نے پوپ کا استقبال کیا، جب کہ بدھ کو منعقد ہونے والی اجتماعی دعا میں شرکت کے لیے 150000 سے زائد مسیحیوں نے اپنے نام درج کرائے ہیں۔

تشدد زدہ ریاستِ رخائن میں مسائل سے دوچار افراد کو، رومن کیتھولک چرچ کے سربراہ نے بودھ اکثریت والے ملک میں روہنگیا مسلمانوں کو اپنے ’’بھائی اور بہن‘‘ قرار دیا۔

’پونٹف‘ کے شڈول میں مہاجر کیمپ کا دورہ شامل نہیں ہے۔ لیکن، وہ متوقع طور پر بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں روہنگیا کے ایک چھوٹے سے گروہ کے ساتھ ملاقات کریں گے۔

دونوں ملکوں کے حکام کے مطابق، حالیہ ہفتوں کے دوران، میانمار اور بنگلہ دیش نے ایک سمجھوتا طے کیا ہے جس کے تحت میانمار کی ریاست رخائن میں تشدد کے واقعات سے بچ نکلنے والے لاکھوں روہنگیا مسلمان جو بنگلہ دیش آچکے ہیں، وہ میانمار واپس جائیں گے۔

تاہم، اقوام متحدہ کے مہاجرین سے متعلق ادارے کے ترجمان نے کہا ہے کہ میانمار کی رخائن ریاست کی صورت حال ایسی نہیں کہ مہاجرین کی بحفاظت اور لگاتار واپسی کو یقینی بنایا جا سکے۔