اتوار کو ویٹکن میں ہونے والی ایک غیر متوقع نشست کی دعوت پوپ نے اپنے حالیہ دورہٴ مشرق وسطیٰ کے دوران پیش کی تھی، جہاں پوپ فرینسس فوٹو سیشن کے مواقع میں شریک ہوئے، جن سے عمومی طور پر پاپائے روم احتراز کیا کرتے ہیں
واشنگٹن —
اسرائیلی صدر شمعون پیریز اور فلسطینی صدر محمود عباس کی اتوار کو ویٹکن میں پاپائے روم سے ملاقات متوقع ہے، جسے ’دل کی گہرائی کے ساتھ کی جانے والی عبادت کی نشست‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
اس غیر متوقع نشست کی دعوت پوپ نے اپنے حالیہ دورہٴ مشرق وسطیٰ کے دوران دی تھی، جہاں پوپ فرینسس فوٹو کھچوانے کے مواقع میں شریک ہوئے، جن سے عمومی طور پر پاپائے روم احتراز کیا کرتے ہیں۔
وہ فلسطینی علاقہ جات کے گِرد قائم باڑ اور دہشت گردی میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں اسرائیل کی تعمیر کردہ یادگار کے سامنے کچھ دیر رُکے تھے۔
وطن واپسی پر، پوپ فرینسس نے نامہ نگاروں کو بتایا تھا کہ وہ تعطل کے شکار امن عمل میں ملوث نہیں ہونا چاہتے۔
لیکن، واشنگٹن کی کیتھولک یونیورسٹی آف امریکہ، ڈینئل پیتری نے کہا ہے کہ ’دعوت کی یہ پیش کش، ایک جراتمندانہ اقدام ہے‘۔
بقول اُن کے، ’اگر کچھ پیش رفت ہوتی ہے، تو یہ ایک بڑی بات ہوگی۔ مشرق وسطیٰ میں پوپ فرینسس معجزانہ عمل کے مالک شخص قرار دیے جاتے ہیں‘۔
اُنھوں نے کہا کہ، ’اپنے عقیدمندوں کے لیے، پوپ کو پہلے ہی معجزے آشکار کرنے والے کی حیثیت حاصل ہے۔ سات ستمبر، 2013ء کو اُن کی شام میں امن کے لیے ’پریئر وِجل‘ کے ایک ہفتے بعد ایک سمجھوتا سامنے آیا؛ اور، بعد میں اسد حکومت کی طرف سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی پاداش میں امریکی فضائی کارروائی کا معاملہ ٹل سا گیا‘۔
کرسٹوفر ہیل کا تعلق کیتھولکس کے ’سب کی بھلائی‘ کے اتحاد سے ہے۔ اُنھوں نے ’ٹائم میگزین‘ میں تحریر کردہ مضمون میں کہا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں پوپ کی حاصل کی گئی کامیابیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ’دنیا کے بہترین سیاست دان‘ ہیں۔
تاہم، پیتری، جو ’پی ایچ ڈی‘ کے امیدوار ہیں، اس بات کے جواب میں دلیل دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ پوپ کی عبادت کے بعد بھی شام کے تنازعے، اور ساتھ ہی ساتھ، کیمیائی حملوں کے الزامات کے نتیجے میں لاکھوں افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
بقول اُن کے، ایسا دعویٰ کرنا، میرے خیال میں، اخلاقی اور دانش کی سطح پر، درست عمل نہ ہوگا۔ اور مزید کہا کہ پوپ کے اقدامات کی علامتی اہمیت سے انکار نہیں۔
اتوار کی عبادت والی ملاقات کے بعد، سینٹ پیٹرس اسکوائر میں صبح کی’پیتے کوست سروس‘ بھی منعقد ہوگی۔ اور ابھی یہ بات واضح نہیں آیا یہ دو سیاسی راہنما کسی ٹھوس قسم کی پیش کش کرنے کی حیثیت رکھتے ہیں۔
اسرائیلی صدر کے طور پر، پیریز کے عہدے کی میعاد مکمل ہونے والی ہے؛ جب کہ حال ہی میں عباس نے ایک اتحادی حکومت سے حلف لیا ہے، جس میں حماس شامل ہے، جو اسرائیل کی تباہی کی وکالت کرتی ہے۔
بذات خود، یہ ایک معجزے سے کم نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ویٹکن میں عبادت کی ایک نشست منعقد کی جا رہی ہے، جو امن کی کوششون کے ضمن میں ایک مثال بن سکتی ہے، جس کی قیادت پوپ خود کر رہے ہوں۔
اس غیر متوقع نشست کی دعوت پوپ نے اپنے حالیہ دورہٴ مشرق وسطیٰ کے دوران دی تھی، جہاں پوپ فرینسس فوٹو کھچوانے کے مواقع میں شریک ہوئے، جن سے عمومی طور پر پاپائے روم احتراز کیا کرتے ہیں۔
وہ فلسطینی علاقہ جات کے گِرد قائم باڑ اور دہشت گردی میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں اسرائیل کی تعمیر کردہ یادگار کے سامنے کچھ دیر رُکے تھے۔
وطن واپسی پر، پوپ فرینسس نے نامہ نگاروں کو بتایا تھا کہ وہ تعطل کے شکار امن عمل میں ملوث نہیں ہونا چاہتے۔
لیکن، واشنگٹن کی کیتھولک یونیورسٹی آف امریکہ، ڈینئل پیتری نے کہا ہے کہ ’دعوت کی یہ پیش کش، ایک جراتمندانہ اقدام ہے‘۔
بقول اُن کے، ’اگر کچھ پیش رفت ہوتی ہے، تو یہ ایک بڑی بات ہوگی۔ مشرق وسطیٰ میں پوپ فرینسس معجزانہ عمل کے مالک شخص قرار دیے جاتے ہیں‘۔
اُنھوں نے کہا کہ، ’اپنے عقیدمندوں کے لیے، پوپ کو پہلے ہی معجزے آشکار کرنے والے کی حیثیت حاصل ہے۔ سات ستمبر، 2013ء کو اُن کی شام میں امن کے لیے ’پریئر وِجل‘ کے ایک ہفتے بعد ایک سمجھوتا سامنے آیا؛ اور، بعد میں اسد حکومت کی طرف سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی پاداش میں امریکی فضائی کارروائی کا معاملہ ٹل سا گیا‘۔
کرسٹوفر ہیل کا تعلق کیتھولکس کے ’سب کی بھلائی‘ کے اتحاد سے ہے۔ اُنھوں نے ’ٹائم میگزین‘ میں تحریر کردہ مضمون میں کہا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں پوپ کی حاصل کی گئی کامیابیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ’دنیا کے بہترین سیاست دان‘ ہیں۔
تاہم، پیتری، جو ’پی ایچ ڈی‘ کے امیدوار ہیں، اس بات کے جواب میں دلیل دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ پوپ کی عبادت کے بعد بھی شام کے تنازعے، اور ساتھ ہی ساتھ، کیمیائی حملوں کے الزامات کے نتیجے میں لاکھوں افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
بقول اُن کے، ایسا دعویٰ کرنا، میرے خیال میں، اخلاقی اور دانش کی سطح پر، درست عمل نہ ہوگا۔ اور مزید کہا کہ پوپ کے اقدامات کی علامتی اہمیت سے انکار نہیں۔
اتوار کی عبادت والی ملاقات کے بعد، سینٹ پیٹرس اسکوائر میں صبح کی’پیتے کوست سروس‘ بھی منعقد ہوگی۔ اور ابھی یہ بات واضح نہیں آیا یہ دو سیاسی راہنما کسی ٹھوس قسم کی پیش کش کرنے کی حیثیت رکھتے ہیں۔
اسرائیلی صدر کے طور پر، پیریز کے عہدے کی میعاد مکمل ہونے والی ہے؛ جب کہ حال ہی میں عباس نے ایک اتحادی حکومت سے حلف لیا ہے، جس میں حماس شامل ہے، جو اسرائیل کی تباہی کی وکالت کرتی ہے۔
بذات خود، یہ ایک معجزے سے کم نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ویٹکن میں عبادت کی ایک نشست منعقد کی جا رہی ہے، جو امن کی کوششون کے ضمن میں ایک مثال بن سکتی ہے، جس کی قیادت پوپ خود کر رہے ہوں۔